|
اسلام آباد _ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف عاصم منیر سے متعلق لب و لہجے میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ بدھ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کچھ ہوا تو وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو نہیں چھوڑیں گے۔
دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے بعض رہنماؤں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جس سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں کہ شاید عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور وہ جلد رہا ہونے والے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے فوج مخالف ٹرینڈ چلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا عمران خان آٹھ ماہ سے جیل میں رہ کر مایوس ہو رہے ہیں؟ کیا وہ اب فوج پر دباؤ ڈال رہے ہیں؟ کیا عمران خان کی پارٹی اُن کے بیانات سے فاصلہ رکھ کر ملکی سیاست میں خود کو زندہ رکھنا چاہ رہی ہے؟
واضح رہے کہ عمران خان نے بھی چند روز قبل صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا تھا کہ اُن کی پارٹی میں موجود کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں جو پارٹی کو توڑنا چاہتے ہیں۔
اڈیالہ جیل میں بدھ کو نئے حکم نامے کے تحت صحافیوں پر عمران خان سے سوال کرنے کی بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
بدھ کو جب عمران خان کمرۂ عدالت میں آئے تو الگ سے میڈیا باکس دیکھ کر پریشان ہوئے اور انہوں نے جج کے جانے کے بعد میڈیا سے بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نو فٹ بلند شیشے اور لکڑی کے تختوں کی وجہ سے عمران خان میڈیا سے براہِ راست بات چیت نہ کر سکے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کے لب و لہجے میں تلخی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ایک موقع پر عمران خان نے کرسی پر کھڑے ہوکر میڈیا نمائندوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور ناکامی پر کرسی سے اتر کر اونچی آواز میں بہاولنگر واقعے میں فوج کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے اور ساتھ ہی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا نام لے کر کہا کہ اگر ان کی اہلیہ کو کچھ ہوا تو وہ جنرل عاصم منیر کو نہیں چھوڑیں گے۔
'عمران خان اپنے تمام آپشن استعمال کر چکے ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ عمران خان بوکھلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور وہ اپنے تمام آپشنز استعمال کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کا خیال تھا کہ وہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیانات دے کر اسے دفاعی پوزیشن میں لے آئیں گے۔ لیکن فوج صرف آرمی چیف کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ادارہ ہے۔
اُن کے بقول فوج کا ہر سپاہی اپنے سپہ سالار کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، لہذٰا عمران خان انہیں دباؤ میں نہیں لا سکتے۔
'عمران خان کی مشکلات اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی وجہ سے ہیں'
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ عمران خان کو ایک بات کا اندازہ ہے کہ ان کے خلاف مقدمات کی نوعیت قانونی سے زیادہ سیاسی ہے اور انہیں عدالتوں سے ریلیف مل سکتا ہے۔ لیکن ان کی مشکلات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹکراؤ کے خاتمے کے لیے کچھ لوگ معاونت کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اب تک کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ اسی وجہ سے عمران خان کا غصہ بڑھ رہا ہے اور خاص طور پر جب وہ اپنی اہلیہ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ زیادہ غصے میں آجاتے ہیں۔
سلمان عابد کے بقول عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی اہلیہ کی گرفتاری اور اب تک جو کچھ ہوا ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے سب کروایا ہے لہذا اب وہ براہ راست آرمی چیف کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں اور انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کی فوج اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ پاکستانی فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اُنہیں سیاسی اور قانونی معاملات میں گھسیٹنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
عمران خان کے مختلف کیسز میں وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کے مطابق عمران خان کہتے ہیں کہ اگر عاصم منیر سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کا نام لینا جائز ہے۔ ان کے بقول عمران خان بشریٰ بی بی کی سزا پر تحفظات رکھتے ہیں اور ان کی سوچ ہے کہ یہ براہِ راست آرمی چیف کے کہنے پر دی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انتظار پنجوتھہ نے کہا کہ عمران خان کا سخت لہجہ غصہ نہیں بلکہ وہ بہت پرسکون ہیں۔ ایسا لہجہ ہونا ان کی سیاسی حکمتِ عملی ہوسکتی ہے۔
'نواز شریف نے فوج سے ٹکر لی تو سیاست دانوں سے بات کی تھی'
تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ جب کوئی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑا مول لیتا ہے تو وہ باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتا ہے۔
اُن کے بقول نواز شریف نے جب فوج کے خلاف بیانات دیے تو اس کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا اور اس کے بعد وہ بہتر پوزیشن پر آئے۔ لیکن عمران خان اس بارے میں اپنی ذات تک محدود ہیں اور اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
سلمان عابد کے بقول عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس وقت افہام و تفہیم کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک ٹکراؤ کی صورتِ حال ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔ لیکن یہ مفاہمت یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔
سلمان عابد کے بقول اس وقت پی ٹی آئی میں دو گروپس بھی موجود ہیں جن میں سے ایک کا خیال ہے کہ فوج کے ساتھ مفاہمت کی جائے جب کہ ایک گروپ ایسا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی شرائط پر مفاہمت کا حامی ہے۔
اُن کے بقول عمران خان اس دوسرے گروپ کے حامی ہیں اور انہی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق چلیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مفاہمتی رویہ دکھانے کے حوالے سے انتظار پنجوتھہ کہتے ہیں "بطور جماعت ہمارا مؤقف ہے کہ ہمارا فوج کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں اور صرف انفرادی طور پر آرمی چیف عاصم منیر کے ساتھ مسائل ہیں۔"
ان کے بقول، عمران خان کہتے ہیں کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے۔ لیکن ان کے تحفظات ایک شخصیت کے حوالے سے ہے۔
انتثار پنجوتھہ کے مطابق عمران خان سمجھتے ہیں کہ ملک میں ڈکٹیٹر شپ ہے کیوں کہ انتخابی نتائج کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد موجودہ حکومت کو جمہوری حکومت نہیں کہا جا سکتا۔
تجزیہ کار سلمان غنی تحریکِ انصاف کی طرف سے مفاہمتی بیانات پر کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں میں ان کے بعض لوگوں کی ضمانتیں ہوئیں اور عمران خان کی اہلیہ کو بھی ایک کیس میں ریلیف ملا۔ لیکن اس کے بعد بھی عمران خان کے بیانات کی وجہ سے ہی معاملات خراب ہوئے۔
'پی ٹی آئی کے بعض افراد فوج کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں'
اُن کے بقول حالیہ عرصے میں جب امریکہ میں آئی ایم ایف کے باہر مظاہرے ہوئے تو پی ٹی آئی نے اس سے لاتعلقی اختیار کی۔ لیکن عمران خان نے ان مظاہروں کی حمایت کی۔ اسی طرح سعودی عرب پر رجیم چینج کا الزام لگانے والے شیر افضل مروت کے بیان سے پارٹی نے لاتعلی اختیار کی۔ لیکن کل عمران خان نے شیر افضل مروت کو ہی ضمنی انتخابات میں مہم میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سلمان غنی کے بقول اس سے نظر آتا ہے کہ پارٹی میں موجود بعض افراد فوج کے ساتھ مفاہمت چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان اس گروپ کے ساتھ ہیں جو فوج کے ساتھ تکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
عمران خان کئی بار اشاروں کنایوں میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کوئی بات ہی نہ کرے تو وہ کیا کر سکتے ہیں۔ کئی مقامات پر وہ فوج کی تعریف کرتے رہے اور اب پچھلے کئی دنوں سے وہ براہ راست آرمی چیف کا نام لے کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرف سے بار بار اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں ہے اور ہم فوج کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق ہر چند روز کے بعد عمران خان کی طرف سے آنے والے بیانات ان تمام خیالات اور بیانات کی نفی کر دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی اب تک کسی نرمی کے آثار نظر نہیں آ رہے اور عمران خان نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ نو مئی کے کیسز میں سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ چند افراد کی رہائی اور بعض کیسز میں عمران خان کی ضمانتوں کے بعد ڈیل کا تاثر دیا جا رہا تھا۔ لیکن عمران خان کے لب و لہجہ سے کسی بھی ڈیل کا تاثر نہیں مل رہا۔
پاکستان تحریکِ انصاف ماضی میں فوج مخالف تمام بیانات کی مخالف رہی ہے اور اس بارے میں پارٹی کے موجودہ چیئرمین گوہر خان کئی مرتبہ کہہ چکے کہ وہ فوج کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اکثر ان کے پاس عمران خان کے فوج مخالف بیانات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔
پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کا نام لے کر براہِ راست الزام تراشی کرنا مناسب نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان ماضی میں خود کہتے رہے کہ فوج ہماری ہے، آرمی چیف فوج سے الگ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔ ایسے میں اس طرح کے بیانات نہ ان کے لیے اور نہ ہی ان کی جماعت کے لیے مناسب ہے۔
ان بیانات کی وجہ کے بارے میں نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اس وقت تک عمران خان اور ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ کسی بھی شخص کے ساتھ ہو گا تو اس کا ردِعمل آسکتا ہے۔ غصہ بھی ہے فرسٹریشن بھی ہے لیکن ایک لیڈر اور عام آدمی میں فرق ہونا چاہیے اور جب آپ بڑے مقام پر ہوتے ہیں تو زہن کے ساتھ ساتھ دل بھی بڑا ہونا چاہیے۔
فورم