|
کیا عمران خان رہا ہونے والے ہیں؟ کیا سابق وزیرِ اعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی ماہ رہا کیا جا سکتا ہے؟ رہائی کے بعد کیا عمران خان پھر سڑکوں پر ہوں گے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کی مفاہمت ہو رہی ہے؟
حالیہ دنوں میں دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر ایسے کئی سوالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہائی سے متعلق اطلاعات حالیہ دنوں میں زیادہ زیرِ گردش ہیں۔ بعض مبصرین غیر مصدقہ رپورٹس کی بنیاد پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی رواں ماہ یا پھر مئی تک جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف اس وقت درجنوں مقدمات درج ہیں جن میں سے بعض میں انہیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ تاحال صرف توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطل ہو ئی ہے۔
توشہ خانہ کیس میں سزا کی معطلی اور بعض مقدمات میں ملنے والے ریلیف کو بعض مبصرین عمران خان کی اسٹیلشمنٹ سے کسی ممکنہ ڈیل کے لیے پیش رفت قرار دیتے ہیں لیکن تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی مفاہمت نہیں ہو رہی۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ عمران خان کے خلاف کیسز کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اب حالیہ عرصے میں عدلیہ نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد سابق وزیرِ اعظم کو میرٹ پر عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔
کیا تبدیل ہوا ہے؟
بعض تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف ملنا بلا وجہ نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا حکومت سمیت بعض اہم شخصیات کی مدد سے اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان جیل سے باہر آئیں اور موجودہ سسٹم کو چلنے دیں۔
عمران خان کو گزشتہ ہفتوں میں بعض مقدمات میں ریلیف ملا اور توشہ خانہ کیس میں ان کے وکیل نے اپیل پر بحث کرنا چاہی لیکن نیب نے اپیل پر بحث کے بجائے سزا معطل کرنے کی مخالفت نہیں کی اور کہا کہ اگر عدالت یہ سزا معطل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اس کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطل کر دی گئی۔
اس کے علاوہ عمران خان کو اسلام آباد میں مختلف تھانوں میں نو مئی کے واقعات کے تناظر میں درج مقدمات میں بری کر دیا گیا ہے۔
ماضی میں عمران خان کے وکلا اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے ملاقاتوں میں مشکلات کی شکایت کی جاتی تھی لیکن یہ سلسلہ بھی تھم گیا ہے۔ ملاقات کے دن پر کئی سیاسی رہنما بہ آسانی عمران خان سے ملاقات کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے کئی ایسے قائدین جو عرصہ دراز سے منظرِ عام سے غائب تھے وہ سامنے آ گئے ہیں اور پشاور ہائی کورٹ سے راہداری ضمانت لے کر مختلف صوبوں میں اپنے خلاف درج مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
ان میں حماد اظہر اور اعظم سواتی بھی شامل ہیں جو کئی ماہ تک روپوش رہنے کے بعد گزشتہ دنوں منظرِ عام پر آئے تھے۔
مبصرین کے مطابق ان تبدیلیوں اور بدلتے حالات و واقعات کا اپنا ایک پس منظر ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ اور عمران خان کے درمیان غیر اعلانیہ رابطے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اور ان کی جماعت کو ریلیف مل رہا ہے۔
’خاموشی کے ساتھ مثبت سیاست کرنا ہو گی‘
سینئر صحافی اعزاز سید نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور ان کے دوستوں کی طرف سے عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ اگر وہ خاموشی رہیں اور سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی کوشش نہ کریں تو وہ جیل سے باہر آ کر اپنی سیاست کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پی ٹی آئی رہنماؤں کے رابطے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر عمران کی طرف سے ایک بار پھر اجتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور دھرنوں کی سیاست کی گئی تو انہیں دوبارہ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
اعزاز سید کے بقول عمران خان کو اسی ماہ یا پھر آئندہ ماہ تک بڑا ریلیف مل سکتا ہے اور وہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔
اس سوال پر کہ عمران خان کے ساتھ مفاہمت کے لیے ضامن کون ہو گا؟ اس پر اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران خان جیل سے رہا ہوں جس کے بعد وہ پارٹی معاملات کو چلائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کے پی حکومت اس بات کی ضامن ہو گی کہ عمران خان اجتجاجی سیاست کے بجائے فی الحال صرف پارلیمانی سیاست پر اکتفا کریں اور موجودہ حکومت کو چلنے دیں۔
اعزاز سید کے مطابق ریلیف ملنے تک جیل میں عمران خان کے رویہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اگر یہ رویہ مثبت رہا تو یہ جلد ہی پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن اگر اس دوران عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ تنقید کرتے رہے تو یہ ریلیف موخر بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان اور ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ یا حکومت سے کسی بھی رابطے سے انکار کر رہے ہیں اور ان کہنا ہے کہ کمزور کیسز کی وجہ سے عمران خان جلد جیل سے باہر ہوں گے۔
’مفاہمت کی بات نہیں ہو رہی‘
پاکستان تحریکِ انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مفاہمت کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔ عمران خان کے خلاف چار مقدمات میں سے ایک توشہ خانہ کیس میں ان کی سزا معطل ہو چکی ہے۔ سائفر کیس میں اب تک جو عدالتی کارروائی ہوئی ہے اس کے مطابق یہ کیس بالکل بے بنیاد ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عدت میں نکاح کا کیس کبھی بنتا ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی ٹرسٹی ہیں جنہیں ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس صورت حال میں ہمارا اور ہماری لیگل ٹیم کا موقف ہے کہ عمران خان رواں ماہ ہی جیل سے باہر ہوں گے۔
انہوں نے کہا ہماری قانونی ٹیم کو توقع ہے کہ اگر یہ کیسز ختم نہ بھی ہوئے تو کم سے کم ان کی سزائیں معطل ہو جائیں گی۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ عمران کے خلاف کیسز میں نچلی عدالتوں کے ججز کو دباؤ میں لایا گیا تھا اور ان کی گردن پر انگوٹھے رکھ کر فیصلے لیے گئے لیکن اب یہ کیسز بڑی عدالتوں میں ہیں۔
ان کے مطابق عدلیہ کے ساتھ گذشتہ کچھ عرصے میں جو بھی ہوا اس کے بعد اب عدلیہ بھی اس تمام صورت حال سے تنگ آ چکی ہے اور اب ان کی برداشت کی حد ہو چکی ہے۔ عمران خان کے خلاف کیسز میں کوئی جان نہیں اور انہیں ریلیف مل چکا ہے۔
خیبر پختونخوا میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں اور کورکمانڈر ہاؤس میں افطار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ افطار کی ایک روایت ہے جو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کورکمانڈر نے افطار پر بلایا اور اس کے بعد ایک سیکیورٹی بریفنگ ہوئی جس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہم فوج کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ چاہتے ہیں۔ اس صوبہ میں فوج سیکیورٹی معاملات میں اہم کردار ادا کر رہی ہے جس کے لیے بہترین رابطہ ہونا چاہیے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اس مقصد کے لیے مذاکراتی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ اس میں کوئی نئی پالیسی نہیں ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ بات کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
اس سوال پر کہ اس کمیٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی میٹنگ ہوئی ہے یا نہیں؟ رؤف حسن نے کہا کہ اگر کوئی ملاقات ہوتی تو اس کی خبر سامنے آ جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی جماعت ہیں۔ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور اگر اسٹیبلشمنٹ بات کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں۔