|
"شادی کے چار سال بعد میرے گھر پہلی اولاد بیٹی ہوئی جس کی پیدائش سات ماہ میں ہوئی اس سے قبل میری بیوی کے دو حمل ضائع ہو چکے تھے۔ بیٹی کو ڈاکٹرز نے انتہائی نگہداشت میں داخل کر رکھا تھا اور اسے ماں کے دودھ کے سوا کوئی غذا نہیں دی جا سکتی تھی۔ بہت بھاگ دوڑ اور ڈاکٹر کی کوششوں سے ہمیں ایک ڈونر ملیں جنہوں نے میری بیٹی کو دودھ پلایا۔"
یہ کہنا ہے 35 سالہ خرم کا جنھیں اپنی بیٹی کو ماں کے دودھ کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑی۔
خرم کے بقول "میں اور میری بیوی بہت پریشان تھے بچے کی قبل از وقت پیدائش اور بیوی کا ناکافی دودھ ہمارے لیے چیلنج بن چکا تھا۔"
اُن کے بقول ڈاکٹرز ہمیں کہہ رہے تھے کہ اس حالت میں بچی کو کسی صورت ڈبے کا دودھ نہیں دیا جا سکتا پھر ایک نرس اور ڈاکٹر نے ہماری مدد کی اور ایک ڈونر کا بندوبست کیا۔
اب میری بیٹی ایک سال کی ہو گئی ہے۔ لیکن وہ وقت ہمیں آج بھی یاد آئے تو ہم سوچتے ہیں کہ اگر وہ خاتون ہماری بیٹی کے لیے نہ آتیں تو ہم کیا کرتے۔
پاکستان میں پہلے ہیومن بینک کا قیام اور بندش کا معاملہ
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نومولود بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے اکثر ایسے بچوں کی اموات کی خبریں سندھ کے ضلع تھرپارکر سے آتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار میں سے 54 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس کی وجوہات بہت سی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت بھی یہ کہتا ہے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو کم از کم چھ ماہ تک ماں کا دودھ پلایا جائے اور یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہنا چاہیے کیوں کہ ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں۔
ان تمام باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے حال ہی میں صوبہ سندھ میں پہلا شرعی ملک بینک قائم کرنے کا دعویٰ کیا گیا جس کی معاونت یونیسیف کر رہا تھا۔
اس ملک بینک کا افتتاح محکمہ صحت سندھ کی سربراہ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کیا تھا لیکن اس ملک بینک کے اعلان کے ساتھ ہی یہ منصوبہ تنازعات کا شکار ہو گیا۔
ملک کا پہلا ماں کے دودھ کا بینک کھلنے کی خبر نے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں میں بھی ہلچل پیدا کر دی۔
ایک جانب وہ مائیں جو ماضی میں اپنے بچوں کو مدر فیڈ نہ ملنے سے مشکلات کا سامنا کر چکی تھیں نے اس اقدام کو سراہا جب کہ بعض حلقوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے انسانی دودھ کی تجارت شروع ہو جائے گی۔
یوں جون کے پہلے ہفتے میں جب اس ہیومن ملک بینک کے قیام کا اعلان ہوا تو 16 جون کو دارالعلوم کورنگی کے مفتی تقی عثمانی نے اسے غیر شرعی قرار دینے کا فتویٰ جاری کر دیا۔
بعدازاں محکمہ صحت سندھ نے اسے باقاعدہ طور پر بند کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
محکمہ صحت سندھ کا یہ ملک بینک کیسے کام کرتا؟
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محکمہ صحت سندھ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ملک بینک کا افتتاح ہوا تو اس کے بعد بہت سے مراحل طے ہونے تھے۔
یونیسیف کے تعاون سے شروع کیے گئے اس منصوبے کو بنا کسی تحقیق اور مشاورت کے شروع نہیں کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے اعلان کے بعد اس ملک بینک میں کام کرنے والے عملے کو تربیت کے لیے ایران بھیجا جانا تھا جہاں پہلے سے ہی ایسے کئی ماں کے دودھ کے بینک کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔
لیکن اپنے افتتاح کے اعلان کے بعد سے ہی جس طرح کے اعتراضات کی زد میں یہ منصوبہ آیا وہ تمام مراحل روک کر اسے بند کرنا پڑ گیا۔ اب معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس ہے دیکھتے ہیں وہ اس پر ابہام دور کر پاتی ہے یا نہیں۔
اس منصوبے کا آئیڈیا ڈاکٹر جمال رضا کا تھا جو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ نے ان سے جب اس منصوبے کی افادیت کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم اس منصوبے کا افتتاح کرنے والی محکمہ صحت سندھ کی سربراہ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک خط ارسال کر دیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں کوئی بھی عورت بچوں کو دودھ پلا سکتی ہے۔
اس ادارے میں جو بھی خواتین دودھ عطیہ کریں گی ان کا ریکارڈ رکھا جائے گا اور دودھ پینے والے بچے کے والدین سے وہ ریکارڈ شئیر کیا جائے گا۔
ڈاکٹر عذرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ملک بینک میں کوئی خاتون بچوں کو براہ راست بریسٹ فیڈ نہیں کروائے گی۔ عطیہ کیے جانے والے دودھ کو لے کر ہمارے عملے نے اسے بیکٹریا سے پاک کر کے فریز کرنا تھا جس کے بعد بچوں کو وہ دودھ ٹیوب یا سرنج کے ذریعے فراہم کیا جانا تھا کیوں کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے یہ دُودھ خود نہیں پی سکتے۔
سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ اینڈ نیوناٹولوجی نے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ ماں کے دودھ کا یہ بینک دارالعلوم کراچی سے فتویٰ لینے کے بعد ہی قائم کیا گیا تھا۔
ادارے کے مطابق فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ 34 ہفتوں سے کم عمر وہ بچے جو قبل از وقت پیدا ہوئے ہوں اور ان کا وزن دو کلو گرام سے کم ہو۔ ان کے لیے ماں کا دودھ کبھی کبھی اتنا نہیں ہوتا کہ ان کی نشوونما کی جاسکے ایسے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کے سوا کوئی آپشن نہیں اگر ایسے بچے ڈبے کا دودھ لیں تو ان میں انفیکشن اور موت کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
ادارے کا کہنا تھا کہ فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ جو بھی مائیں دودھ فراہم کر رہی ہوں۔ ان کا ڈیٹا رکھا جائے گا۔ مسلمان بچوں کو صرف مسلم ماؤں کا ہی دودھ دیا جائے گا یہ دودھ صرف 34 ہفتوں سے کم عمر بچوں کو دیا جائے گا جن کی مائیں دودھ پلانے سے قاصر ہیں۔
فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ سہولت بنا کسی معاوضے کے فراہم کی جائے گی۔ ادارے کا کہنا تھا کہ ملک بینک کے قیام میں فتویٰ کے تمام نکات کو مدِنظر رکھا گیا تھا۔ لیکن جب دارالعلوم کا نظرِ ثانی فتویٰ جاری ہوا تو اس ملک بینک کو غیر فعال کرنا پڑا۔
ہیومن ملک بینک پر دارلعلوم کے اعتراضات کیا تھے؟
ملک بینک کے غیر شرعی ہونے کے فتویٰ پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی سید حسین احمد عفاللہ کے دستخط ہیں۔ اس فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ مجمع الفقہ السلامی جدہ نے بھی ملک بینک کی ممانعت کی قرارداد پاس کی ہے۔
مفتی تقی عثمانی کا یہ اعتراض سامنے آیا کہ ہیومن ملک بینک کے قیام سے حرمت رضاعت کے حوالے سے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں اس ملک بینک کے قیام سے انسانی دودھ کی تجارت کا اندیشہ ہے ایسی تجارت شریعت میں قابل قبول نہیں۔
وائس آف امریکہ نے یہ جاننے کے لیے کہ ملک بینک پر نظرِ ثانی فتویٰ کی ضرورت کیوں پیش آئی مفتی تقی عثمانی سے رابطہ کیا گیا جس پر وفاق المدارس کے کوآرڈینیٹر محمد ابراہیم سکرگاھی نے اُن کی جانب سے ردِعمل دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ابراہیم کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت سندھ جس فتوے کا حوالہ دے رہا ہے وہ فتویٰ دارالعلوم کے مفتی صاحبان نے مشروط شرائط کے ساتھ سنہ 2017 میں دیا تھا اور اس پر مفتی تقی عثمانی کے دستخط نہیں تھے۔
اُن کے بقول "ہم سمجھتے ہیں کہ جن شرائط کی بنیاد پر ہیومن ملک بینک کھولا گیا تھا اسے آج کے دور میں عملی طور پر پورا کرنا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہے۔"
محمد ابراہیم کے مطابق، مجمع فقہ السلامی جو سعودیہ عرب کی بہت بڑی کونسل ہے اس میں دنیا بھر سے بہت بڑے مفتیان کرام ہوتے ہیں جو فقیہ معاملات کو دیکھتے ہیں۔ محمد تقی عثمانی بھی اس کونسل کے ممبر ہیں۔
اُن کے بقول 1986 میں جب ملک بینک سے متعلق فتویٰ دیا گیا تھا اس وقت بھی مفتی تقی عثمانی اس کونسل کے رکن تھے۔ اسی لیے جون 2024 میں دیے جانے والے فتوے میں بھی 1986 والے فتوے کا حوالہ دیا گیا ہے۔
محمد ابراہیم کے بقول "ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے بینک میں ماؤں کی جانب سے عطیہ کیے جانے والے دودھ اور ماؤں کا ریکارڈ رکھنا کوئی حل نہیں اگر کسی بھی وجہ سے یہ ریکارڈ ضائع ہو جائے یا غائب ہو جائے تو کیسے دودھ پینے والے بچوں اور ان کے اہلِ خانہ کو معلوم ہو گا کہ ان کے بچے نے کس عورت کا دودھ پیا ہے۔
اُن کے بقول اگر سندھ حکومت کچھ کرنا ہی چاہتی ہے تو ایسے بچے جنہیں دودھ کی ضرورت ہے انہیں ایسی ماؤں کو گود دے دیں جو انھیں دودھ پلا سکے۔ لیکن ماؤں کا دودھ لے کر یوں جمع کرنا کسی لحاظ سے درست نہیں۔
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کو خط تو ارسال کر دیا گیا ہے جس پر وہ دارالعلوم اور نظریاتی کونسل سے مزید رہنمائی کے منتظر ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس اگست میں متوقع ہے جس میں اس مسئلے پر معالجین، علما و مشائخ اور دودھ بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ مشاورت کی جائے گی جس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ لیا جا سکے گا۔
فورم