عراق پر امریکہ کے حملے کو رواں ماہ 20 برس ہوچکے ہیں۔عراق میں امریکہ کی فورسز اگرچہ اب بہت کم تعداد میں ہیں لیکن اس طویل عرصے تک ان کی موجودگی کو خطے میں امریکہ کے اتحادی اور سفارتی اہداف سے منسلک کیا جاتا ہے۔
اس وقت عراق میں لگ بھگ 2500 امریکی فوجی اہل کار موجود ہیں جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بغداد اور شمالی عراق کی فوجی تنصیبات میں موجود ہیں۔
اگرچہ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے تاہم خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان اہل کاروں کی عراق میں موجودگی خطے میں ایرانی اثرات کو محدود کرنے اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے کے امریکی عزم کا اظہار ہے۔
عراق میں 2007 تک امریکہ کے 17 ہزار فوجی اہل کار موجود تھے۔ یہ 2003 میں جنگ شروع ہونے کے بعد عراق میں امریکی فوجیوں کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
عراق میں امریکہ کے موجودہ کردار کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔
آغاز کیسے ہوا ؟
امریکہ نے مارچ 2003 میں عراق پرحملہ کیا تو فضائی قوت سے زمین پر فوج اتارنے کی راہ ہموار کی۔
یہ حملہ اس الزام کی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔بعد ازاں عراق میں ایسے ہتھیاروں کی موجودگی ثابت نہیں ہوسکی۔
صدام حسین کی حکومت ختم ہونے اور امریکہ کی شروع کی گئی جنگ کے بعد عراق میں اقتدار کا توازن سنیوں کے مقابلے میں شیعہ آبادی کے حق میں ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی کردوں کو اپنے علاقوں میں خود مختاری حاصل ہوگئی۔
کئی عراقیوں نے جنگ کے دوران پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کا خیر مقدم کیا۔ اس سے قبل یہ رپورٹس بھی سامنےآئی تھیں کہ شیعہ اور کرد آبادیوں کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔
صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد عراق میں شیعہ اور سنی گروہوں میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ اس خانہ جنگی کے حالات میں امریکہ نے 2011 میں ملک سے اپنی فوج نکال لی تھی۔
دوسری جانب سنی اور شیعہ آبادی میں پائی جانے والی خلیج کی وجہ سے جب 2014 میں داعش نے عراق اور شام میں شورش پیدا کی تو عراق کی پولیس اور فوج اس طوفان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
امریکہ کی واپسی
بنیادی طور پر دہشت گرد تنظیم ’القاعدہ‘ سے جنم لینے والے شدت پسند گروہ ’داعش‘ کے شام اور عراق میں پھیلاؤ سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو نئے خطرے کا احساس ہوا۔ داعش نہ صرف شام اور عراق میں تباہی اور دہشت کی علامت بن گئی تھی بلکہ اس کے عالمی نیٹ ورک نے مغربی ممالک کے لیے بھی سیکیورٹی سے متعلق گہرے خدشات پیدا کردیے تھے۔
داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لیے 2014 میں بغداد میں قائم حکومت نے امریکہ کو اپنی فوج عراق بھیجنے کی باضابطہ دعوت دی۔ اس دوران امریکہ کی زیرِ قیادت اتحاد نے عراق اور شام میں داعش پر فضائی حملے کیے اور عراقی فوج کو تربیت اور مشاورت بھی فراہم کی۔
مارچ 2019 میں داعش کی خلافت کی قیام کی مہم ختم ہونے کے بعد بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراقی فوج کی معاونت جاری رکھی اور اس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بھی کردار ادا کیا۔
عراق میں امریکی فوج کا کردار
اس وقت عراق میں 2500 امریکی فوجی اہل کار ہیں۔ یہ عراقی فوجیوں کے ساتھ مختلف تنصیبات میں موجود ہیں جہاں وہ تربیت اور آلات فراہم کررہے ہیں۔
ان اہل کاروں تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ تاہم پینٹا گان عراق میں معاونت اور شام میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک ہونے والے اہل کاروں کی تعداد ظاہر نہیں کرتا۔
سال 2019 سے 2022 کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج کی قیادت کرنے والے مرین کور کے جنرل فرینک مکینزی کا کہنا ہے کہ عراق میں داعش کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی داعش کے مقابلے کے لیے مدد کر رہا ہے۔ ہم عراق کو اس کی سالمیت برقرار رکھنے میں معاونت فراہم کررہے ہیں جو اس کے شہریوں کے لیے ناگزیر ہے۔
امریکی فوج عراق میں کیوں ہے؟
عام طور پر عراق میں امریکی فوج کی موجودگی کو داعش سے مقابلے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تاہم بعض مبصرین کے نزدیک اس کی اصل وجہ ایران ہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران عراق اور خطے میں ایران کا پھیلتا سیاسی اور عسکری اثر و رسوخ امریکہ کے لیے سیکیورٹی تحفظات کا باعث ہے۔
امریکی فوج کی عراق میں موجودگی سے ایران کے لیے عراق، شام اور لبنان میں ہتھیاروں کی منتقلی مشکل ہے۔ وہ یہ ہتھیار خطے میں اپنے حامی عسکری گروہوں، بالخصوص لبنان میں حزب اللہ کو فراہم کرتا ہے جو اسرائیل کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔
امریکہ کی فوج جنوب مشرقی شام میں التنف چھاؤنی میں بھی اسی مقصد کے لیے موجود ہے کیوں کہ یہ ایران کی حمایت یافتہ قوتوں کو تہران اور دوسری جانب اسرائیل کے نزدیک جنوبی لبنان تک جوڑنے والے اہم راستے پر واقع ہے۔
عراق میں موجود امریکہ کے فوجی اہل کار شام میں موجود امریکی فورسز کو رسد بھی فراہم کرتے ہیں۔ شام میں یہ فورسز کردوں کی زیرِ قیادت سریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کو داعش کے خلاف مزاحمت میں مدد فراہم کررہی ہیں۔
امریکہ ایس ڈی ایف کی معاونت کے لیے داعش پر فضائی حملے کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی فوج شام میں قید داعش کے جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے بھی مدد فراہم کرتی ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب شام اور عراق سے فوج واپس بلانے کا فیصلہ کرنا چاہا تھا تو اس وقت کی عسکری قیادت نے اس سے اختلاف کیا تھا۔
امریکہ کی عسکری قیادت کا مؤقف تھا کہ عراق میں فوج کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ شام میں صورتِ حال خراب ہونے کی صورت میں عراق سے فوری کمک پہنچانا ممکن ہوگا۔
حال ہی میں امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بغداد کے دورے میں کہا تھا کہ امریکہ کی فورسز حکومت کی دعوت پر غیر جنگی کردار کے لیےعراق میں رہنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟
دسمبر 2011 میں جب امریکہ نے عراق سے فوج واپس بلائی تھی تو لاکھوں عراقیوں کے ساتھ ساتھ 4487 امریکی اہل کار ہلاک ہوچکے تھے۔
عراق جنگ میں مجموعی طور پر 32 ہزار اہل کار زخمی ہوئے تھے جب کہ دیگر ہزاروں فوجیوں نے عراق میں زہریلے مواد کے باعث ہونے والی بیماریاں رپورٹ کی تھیں۔
صدر جو بائیڈن کی حکومت نے ایک قانون سازی کے ذریعے ان ویٹرنز کی تعداد میں اضافہ کردیا تھا جنہیں تاعمر صحت اور دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار عراق ری کنسٹرکشن کے مطابق 2003 سے 2012 تک امریکہ نے عراق میں سیکیورٹی فورسز اور تعمیراتی منصوبوں کے لیے 60 ارب ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کی۔ اس کے علاوہ 20 ارب ڈالر عراقی سیکیورٹی فورسز کو تربیت، آلات اور یونیفارم وغیرہ فراہم کرنے پر خرچ کیے گئے۔
اس تحریر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔