واشنگٹن —
فلسطین کی تحریکِ آزادی کے رہنما یاسر عرفات کی بیوہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر 2004ء میں طبی موت نہیں مرے تھے بلکہ انہیں زہر دیا گیا تھا۔
سوہا عرفات نے یہ دعویٰ سوئٹزرلینڈ کے فارینسک ماہرین کی رپورٹ ملنے کے ایک روز بعد کیا ہے جنہوں نے فلسطینی رہنما کی باقیات کے نمونے ٹیسٹ کیے تھے۔
بدھ کو پیرس میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سوہا عرفات نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کی ہلاکت ایک سیاسی قتل تھا جس کی مجرمانہ نوعیت کو وہ اب شواہد کے ساتھ سامنے لارہی ہیں۔
خیال رہے کہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنےو الے ماہرین کی ایک ٹیم نے گزشتہ سال نومبر میں فلسطین کے علاقے رملہ میں موجود یاسر عرفات کی قبر سے ان کی باقیات کے نمونے حاصل کیے تھے تاکہ فلسطینی رہنما کی موت کی وجوہات کا سراغ لگایا جاسکے۔
سوئس ماہرین نے یاسر عرفات کی باقیات کے فارینسک ٹیسٹ کی رپورٹ منگل کو جنیوا میں فلسطینی حکام اور سوہا عرفات کے وکلاکو پیش کی ہے جس میں، سوہا عرفات کے دعویٰ کے مطابق، فلسطینی رہنما کی موت کا سبب تباکار مادے پلونیم کو قرار دیا گیا ہے۔
یاسر عرفات کے قریبی حلقے ان کی موت کو پراسرار قرار دیتے رہے ہیں اور کئی عرب اور فلسطینی باشندوں کا موقف رہا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا۔
یاسر عرفات کے آخری ایام میں ان کی زیرِ استعمال اشیا میں پلونیم کی موجودگی کا دعویٰ سب سے پہلے گزشتہ سال قطر کے ٹی وی چینل 'الجزیرہ' نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا تھا۔
اس رپورٹ کے بعد سوہا عرفات کی درخواست پر اگست 2012ء میں فرانس میں یاسر عرفات کی موت کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں جہاں یاسر عرفات اپنی زندگی کے آخری ایام میں زیرِ علاج رہے تھے۔
سوہا عرفات کی درخواست پر سوئٹزرلینڈکے علاوہ روس اور فرانس کے فارینسک ماہرین نے بھی گزشتہ برس یاسر عرفات کی قبر سے ان کی باقیات کے نمونے حاصل کیے تھے لیکن موخر الذکر دونوں ممالک کے ماہرین کی رپورٹیں تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
سوئس ماہرین کی رپورٹ ملنے کے بعد 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سوہا عرفات کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ نے ان کے تمام شکوک کو یقین میں بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں سائنسی شواہد سے ثابت کیا گیا ہے کہ یاسر عرفات طبی موت نہیں مرے تھے بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔
سوہا نے اپنی گفتگو میں اپنے شوہر کی موت کی ذمہ داری کسی ملک یا شخص پر عائد نہیں کی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کا سربراہ ہونے کے سبب یاسر عرفات کے کئی دشمن تھے۔
سوہا عرفات کے بقول انہیں ماہرین نے بتایا ہے کہ تابکار مادہ ممکنہ طور پر یاسر عرفات کو دی جانے والی کافی، چائے یا پانی میں ملایا گیا ہوگا جس کے باعث انہیں یہ یقین ہے کہ ان کے "قریبی حلقے " کا کوئی شخص بھی ان کے شوہر کو زہر دینے کی سازش میں شریک تھا۔
فلسطین کی تحریکِ آزادی 'پی ایل او' کے ایک رہنما کی جانب سے بدھ کو جاری کیے جانے والے بیان میں یاسر عرفات کی موت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹہرایا گیا ہے جس نے انہیں، سوہا عرفات کے بقول، "قیامِ امن کی راہ میں ایک رکاوٹ" قرار دیا ہو اتھا۔
کئی عرب ممالک اور فلسطین کے عوام اسرائیل کو یاسر عرفات کی موت کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 75 سالہ فلسطینی رہنما کا طرزِ زندگی "غیر صحت مندانہ" تھا جو بالآخر ان کی موت پر منتج ہوا۔
اسرائیل کی جانب انگلیاں اٹھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے یاسر عرفات کو ان کی زندگی کے آخری ڈھائی برسوں میں راملہ میں واقع ان کی تنظیم کے صدر دفتر میں محصور رکھا تھا۔
اسی دفتر میں اکتوبر 2004ء میں یاسر عرفات پر ڈائریا کا شدید حملہ ہوا تھا جس کے بعد انہیں فرانسیسی حکومت کے ایک خصوصی طیارے میں پیرس کے نزدیک ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
فرانس پہنچنے کے بعد فوراً بعد ہی یاسر عرفات کوما میں چلے گئے تھے جس کے بعد 11 نومبر کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
فرانس کے ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی وجہ فالج کا شدید حملہ قرار دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ان کے معالجین نے کہا تھا کہ وہ باوجود کوشش کے یاسر عرفات کی بیماری کی وجہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
سوہا عرفات نے یہ دعویٰ سوئٹزرلینڈ کے فارینسک ماہرین کی رپورٹ ملنے کے ایک روز بعد کیا ہے جنہوں نے فلسطینی رہنما کی باقیات کے نمونے ٹیسٹ کیے تھے۔
بدھ کو پیرس میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سوہا عرفات نے دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر کی ہلاکت ایک سیاسی قتل تھا جس کی مجرمانہ نوعیت کو وہ اب شواہد کے ساتھ سامنے لارہی ہیں۔
خیال رہے کہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنےو الے ماہرین کی ایک ٹیم نے گزشتہ سال نومبر میں فلسطین کے علاقے رملہ میں موجود یاسر عرفات کی قبر سے ان کی باقیات کے نمونے حاصل کیے تھے تاکہ فلسطینی رہنما کی موت کی وجوہات کا سراغ لگایا جاسکے۔
سوئس ماہرین نے یاسر عرفات کی باقیات کے فارینسک ٹیسٹ کی رپورٹ منگل کو جنیوا میں فلسطینی حکام اور سوہا عرفات کے وکلاکو پیش کی ہے جس میں، سوہا عرفات کے دعویٰ کے مطابق، فلسطینی رہنما کی موت کا سبب تباکار مادے پلونیم کو قرار دیا گیا ہے۔
یاسر عرفات کے قریبی حلقے ان کی موت کو پراسرار قرار دیتے رہے ہیں اور کئی عرب اور فلسطینی باشندوں کا موقف رہا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا تھا۔
یاسر عرفات کے آخری ایام میں ان کی زیرِ استعمال اشیا میں پلونیم کی موجودگی کا دعویٰ سب سے پہلے گزشتہ سال قطر کے ٹی وی چینل 'الجزیرہ' نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا تھا۔
اس رپورٹ کے بعد سوہا عرفات کی درخواست پر اگست 2012ء میں فرانس میں یاسر عرفات کی موت کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں جہاں یاسر عرفات اپنی زندگی کے آخری ایام میں زیرِ علاج رہے تھے۔
سوہا عرفات کی درخواست پر سوئٹزرلینڈکے علاوہ روس اور فرانس کے فارینسک ماہرین نے بھی گزشتہ برس یاسر عرفات کی قبر سے ان کی باقیات کے نمونے حاصل کیے تھے لیکن موخر الذکر دونوں ممالک کے ماہرین کی رپورٹیں تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔
سوئس ماہرین کی رپورٹ ملنے کے بعد 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے سوہا عرفات کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ نے ان کے تمام شکوک کو یقین میں بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں سائنسی شواہد سے ثابت کیا گیا ہے کہ یاسر عرفات طبی موت نہیں مرے تھے بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔
سوہا نے اپنی گفتگو میں اپنے شوہر کی موت کی ذمہ داری کسی ملک یا شخص پر عائد نہیں کی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کا سربراہ ہونے کے سبب یاسر عرفات کے کئی دشمن تھے۔
سوہا عرفات کے بقول انہیں ماہرین نے بتایا ہے کہ تابکار مادہ ممکنہ طور پر یاسر عرفات کو دی جانے والی کافی، چائے یا پانی میں ملایا گیا ہوگا جس کے باعث انہیں یہ یقین ہے کہ ان کے "قریبی حلقے " کا کوئی شخص بھی ان کے شوہر کو زہر دینے کی سازش میں شریک تھا۔
فلسطین کی تحریکِ آزادی 'پی ایل او' کے ایک رہنما کی جانب سے بدھ کو جاری کیے جانے والے بیان میں یاسر عرفات کی موت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹہرایا گیا ہے جس نے انہیں، سوہا عرفات کے بقول، "قیامِ امن کی راہ میں ایک رکاوٹ" قرار دیا ہو اتھا۔
کئی عرب ممالک اور فلسطین کے عوام اسرائیل کو یاسر عرفات کی موت کا ذمہ دار ٹہراتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 75 سالہ فلسطینی رہنما کا طرزِ زندگی "غیر صحت مندانہ" تھا جو بالآخر ان کی موت پر منتج ہوا۔
اسرائیل کی جانب انگلیاں اٹھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے یاسر عرفات کو ان کی زندگی کے آخری ڈھائی برسوں میں راملہ میں واقع ان کی تنظیم کے صدر دفتر میں محصور رکھا تھا۔
اسی دفتر میں اکتوبر 2004ء میں یاسر عرفات پر ڈائریا کا شدید حملہ ہوا تھا جس کے بعد انہیں فرانسیسی حکومت کے ایک خصوصی طیارے میں پیرس کے نزدیک ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
فرانس پہنچنے کے بعد فوراً بعد ہی یاسر عرفات کوما میں چلے گئے تھے جس کے بعد 11 نومبر کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
فرانس کے ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی وجہ فالج کا شدید حملہ قرار دیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی ان کے معالجین نے کہا تھا کہ وہ باوجود کوشش کے یاسر عرفات کی بیماری کی وجہ کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔