برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم میں کہا ہے کہ وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولین اسانج کو سپردگی ملزم کے ایکٹ کے تحت سویڈن بھجوایا جاسکتا ہے جہاں وہ جنسی الزامات سے متعلق پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ہیں۔
اسانج کوحوالگی ملزم کے ایکٹ کے تحت سویڈن بھجوانے کی قانونی جنگ اٹھارہ ماہ تک چلتی رہی ہے۔ اسانج کے وکلاء کی ٹیم انہیں بھجوانے کے خلاف یہ دلائل دیتی رہی ہے کہ ان کے خلاف وارنٹ سویڈن کے ایک پراسیکیورٹر نے جاری کیے تھے جو برطانیہ میں ایک مجاز قانونی اتھارٹی کی حیثیت نہیں رکھتے۔
لارڈ نکولس فلپس ، سپریم کورٹ کے صدر ہیں۔ان کا کہناہے کہ اکثریت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سویڈن کا پبلک پراسیکیوٹر سپردگی ملزم کے ایکٹ اور فیصلے سے متعلق فریم ورک کی ایک مجاز قانونی اتھارٹی ہے۔ اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسانج کی حوالگی کی درخواست قانونی تقاضوں کے مطابق کی گئی ہے اور یہ کہ حوالگی کے خلاف اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
سپردگی ملزم کے مسئلے ججوں کی رائے منقسم تھی۔ دو نے اپیل کی حمایت جب کہ پانچ نے مخالفت کی۔
ان پر 2010ء میں ایک خاتون سے چھیڑ چھاڑ اور دوسری کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام ہے۔
اسانج کا کہناہے کہ ایسا باہمی رضامندی سے ہوا تھا اور ان کے خلاف الزامات کی بنیادی سیاسی ہے۔ وہ وکی لیکس ادارے کے سربراہ ہیں جس نے امریکہ کی لاکھوں خفیہ دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کی تھی۔ ان دستاویزات میں عراق اور افغانستان کی جنگ سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے سفارتی مراسلے بھی شامل تھے۔
بدھ کے فیصلے کے ایک مرکزی نکتے کو اسانج کے وکلا نے چیلنج کیا ہے جس میں مقدمہ دوبارہ کھولنےپر غور کے لیے 14 روز دیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مقدمہ دوسری بار بھی سنا جاسکتا ہے۔
قانونی مشاورت کار جوشا روزن برگکا کہناہے کہ اس عرصے کے دوران اسانج کو سویڈین کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ اس مدت کے دوران جولین اسانج اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔ انہیں اس وقت تک سویڈن کے حوالے نہیں کیا جائے گا جب تک یہ نکتے کو حل نہیں کرلیاجاتا۔
فیصلہ سنائے جانے کے وقت اسانج عدالت میں موجود نہیں تھے۔
اسانج کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ ان کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے، 14 روز کی مہلت ہے۔ اگر برطانیہ میں یہ مقدمہ دوبارہ نہ کھل سکا تو وہ سٹراس برگ میں واقع یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت میں اپیل کرسکتے ہیں۔