وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج عدالت میں مختصر سماعت کے بعد باہر آئے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خود کو سویڈن کے حوالے کیئے جانے کی درخواست کی بھر پور مزاحمت کریں گے ۔ انھوں نے کہا’’آج کی کارروائی کے نتیجے کے بارے میں ہم بہت خوش ہیں۔ میں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ پریس کے ارکان کو ہماری دلیل کا خاکہ مہیا کر دیا جائے جو ہمیں کرسمس کی چھٹیوں کے مختصر وقت میں تیار کرنا پڑا تھا، لیکن جس میں بعض اہم معاملات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے ۔‘‘
مارک اسٹیفنزوہ وکیل ہیں جو اسانج کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسانج کے وکیلوں نے جو بریف تیار کی ہے، اس میں اور چیزوں کے علاوہ کہا گیا ہے کہ سویڈش پراسیکیوٹر جنھوں نے گرفتاری کے یورپی وارنٹ کی درخواست کی تھی،اسانج کی حوالگی کی درخواست کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔
مارک اسٹیفنزنے کہا’’پراسیکیوٹر نے بار بار کہا ہے کہ انہیں مسٹر اسانج پوچھ گچھ کے لیئے درکار ہیں، اور انھوں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ ان پر الزام عائد کیا جائے گا یا نہیں۔ ان حالات میں، میرے خیال میں وارنٹ جاری کرنا نا مناسب ہے۔‘‘
اسٹیفنز نےوائس آف امریکہ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کا وارنٹ نا مناسب ہے کیوں کہ پراسیکیوٹر،اسانج سے صرف پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے کہا’’یہ مسلمہ طریقہ ہے کہ وارنٹ کسی ایسے شخص کی گرفتاری کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس پر الزام عائد کیا جانا ہے، یا کسی ایسے شخص کو پکڑنے کے لیئے جسے پہلے ہی سزا سنائی جا چکی ہے۔‘‘
بریف میں الزام لگایا گیا ہے کہ سویڈش پراسیکیوٹرز جس طرح یہ کیس چلا رہےہیں، وہ قانونی طریقۂ کار کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ سویڈش پراسیکیوٹر کے آفس نے اس کیس کی دلیل پر یا کیس پر عمومی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔اس بریف میں دو کیسوں کا حوالہ دیا گیاہے جن میں سویڈن نے بعض لوگوں کو ایسے ملکوں میں بھیج دیا جہاں انہیں اذیتیں دی جا سکتی تھیں۔ اسٹیفنز کہتے ہیں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ سویڈن اسانج کو امریکہ نہ بھیج دے۔ انھوں نے کہا’’سویڈن کے حکام نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے وہ خود ان کے ملک میں قابلِ مذمت ہے کیوں کہ اب یہ پتہ چلا ہے کہ وہ ایسی کارروائیاں کرنے کو تیار تھے جو خود ان کی اپنی پارلیمینٹ کی نظر میں غیر قانونی تھیں۔‘‘
اسٹیفنز کہتے ہیں کہ سویڈن کے حکام نے ان اندیشوں کو دور کرنے کے لیئے کچھ نہیں کیا ہے۔’’سویڈن کے حکام ایسی یقین دہانی کرانے کے لیئے تیار نہیں ہیں کہ اگرجولیان اسانج، اسٹاک ہوم پہنچ گئے تو انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اسانج کے وکیل کہتے ہیں کہ ان کے موکل نے بار بار وڈیوفون کے ذریعے یا برطانیہ میں سویڈن کے سفارت خانے جاکر سوالات کے جواب دینے کی پیش کش کی ہے لیکن پراسیکیوٹر نے ایسی درخواستوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے ۔ اسانج کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کے پیچھے سیاست کام کر رہی ہے۔ انھوں نے عہد کیا ہے کہ ان کی تنظیم سفارتی کیبلز سمیت، امریکی حکومت کے خفیہ کاغذات جاری کرتی رہے گی۔ ’’وکی لیکس کے ساتھ ہمارا کام جاری ہے، اور ہم کیبل گیٹ سے متعلق اور دوسرا مواد شائع کرنے کی رفتار تیز کر رہے ہیں۔ یہ چیزیں دنیا بھر میں ہمارے چھوٹے بڑے اخباروں کی شراکت داری سے اورانسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے ذریعے شائع ہوتی رہیں گی۔‘‘
اسانج برطانیہ کے دیہی علاقے میں کڑی نگرانی میں ایک گھر میں زیرِ حراست ہیں۔ سویڈن کو حوالگی کے کیس کی عدالت میں سماعت کی اگلی تاریخیں 7 اور 8 فروری ہیں۔