امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وکی لیکس نے امریکی محکمہ خارجہ کی جن ڈھائی لاکھ خفیہ دستاویزات کو حاصل کرکے افشا کرنا شروع کیا ہے ان کو کیوں اور کیسے ذخیرہ کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق یہ تمام دستاویزات ایک ایسےخفیہ Databaseمیں جمع کی گئی تھیں کہ کسی سفارت کار کو اس کی خبر ہی نہیں تھی۔ اور اس کا نام تھا Net Centric Diplomacy۔ اس کا ایک اہم مصرف ایسی معلومات کی بہم رسائی تھا جن کی مدد سے امریکہ کو درپیش خطروں کو طشت از بام کرنا تھا۔
لیکن اخبار کے بقول جیسا کہ اکثر ایسے دفتر شاہی اختراعات کے ساتھ ہوتا ہے اس کا حجم اس قدر زیادہ بڑھ گیا جو اس کے تخلیق کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس میں ایسے خطرے بھی پوشیدہ تھے جس کا کسی نے بھی پہلے سے اندازہ نہیں لگایا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ دنیا بھر میں اب کروڑوں لوگوں کو معلوم ہے محکمہ خارجہ کی یہ خفیہ دستاویزات اب وکی لیکس کا اثاثہ بن گئ ہیں۔ لیکن تفتیش کاروں کو حال ہی میں اس کا اندازہ ہوا ہے کہ کمپیوٹر کے ذریعے کئے گئے اس اقدام کا کس قدر خطرناک کردار رہا ہے ۔ کیونکہ یہ جدید زمانے میں امریکی حکومت کی دستاویزوں کی نقب زنی کا غالباً سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔
Net Centric diplomacyکا آغاز سن 2006میں ہوا تھا اور اسے محکمہ دفاع کے بھاری بھر کم خفیہ انٹرنیٹ نظام سے جوڑا گیا تھا اور بہت جلد تقریباً پانچ لاکھ سرکاری ملازمین اور ٹھیکے پر کام کرنے والے لاکھوں افراد جنہیں سیکیورٹی کا اجازت نامہ حاصل تھا دنیا بھر میں کمپیوٹروں سے سفارتی پیغامات تک رسائی حاصل کرنے لگے۔
امریکی تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ امریکی فوجی بریڈلی میننگ نے خلیج فارس میں ڈیوٹی کے دوران محکمہ دفاع کے ڈھائی لاکھ سفارتی پیغامات ڈاؤن لوڈ کئے تھے اور تمام فائلیں وکی لیکس کو فراہم کیں جس نے انہیں اخباروں کو فراہم کیا اور خود بھی سینکڑوں کی تعداد میں دستاویزوں کو انٹرنیٹ پرفراہم کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ ان دستاویزات کے افشا ہونے کے بعد محکمہ خارجہ کے عہدیداروں نے Net Centric diplomacyتک رسائی منقطع کر دی ہے۔