وقت تیزی کے ساتھ گزرتا چلا جا رہا ہے اور پاکستان کو رواں مالی سال یعنی 30 جون سے قبل خود کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچانے کے لیے لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کی فوری ادائیگیاں کرنی ہیں۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ نو فروری کو آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد کا دورہ مکمل کر کے روانہ ہوا تو وزیر خزانہ کو امید تھی کہ "چند روز" میں ابتدائی معاہدہ یعنی اسٹاف لیول ایگریمنٹ طے پاجائے گا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ یعنی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد تقریباً 1.1 ارب ڈالر کا اجرا ہوجائے گا۔ مگر چند روز اب کئی مہینوں میں بدل چکے ہیں اور پروگرام بحالی کے کوئی اثرات نظر نہیں آ رہے۔
ایک جانب پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری جانب ملک سیاسی افرا تفری کے سیاہ بادلوں سے اب تک نکل نہیں پایا اور ایسے میں سالانہ بجٹ پیش کرنے کا مہینہ آنے والا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سالانہ مالی بجٹ عام طور پر جون میں قومی اسمبلی میں پیش کرکے اس کی منظوری اسی ماہ میں حاصل کی جاتی ہے اور یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہوجاتا ہے۔
'فنڈ کی ہدایات نظر انداز کرکے بجٹ منظوری مشکل ہے'
کئی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بھی بظاہر اس بات سے مشروط دکھائی دیتی ہے کہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کی گئی ہیں یا نہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسے میں بجٹ کی تیاری کا عمل جہاں متاثر ہو رہا ہے وہیں مسلسل غیر یقینی کی صورتِ حال بھی برقرار ہے۔ حکومت نے بجٹ کا بنیادی خاکہ طے کرنے کے لیے اب تک قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا۔
'آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر بجٹ منظور کرنا ناممکن ہو گا'
ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ یہ انتخابات کا سال ہے اور حکومت کی بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ ایک ایسا بجٹ پیش کرے جس میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ رعایت جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی کے برخلاف بجٹ منظور کرانا پاکستان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔
اُن کے بقول ایسا کرنے سے نہ صرف موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بلکہ نئے آئی ایم ایف پروگرام کی راہیں بھی مسدود ہوسکتی ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کا فنڈ کے ساتھ 23 واں پروگرام شیڈول کے مطابق اگلے ماہ یعنی جُون میں ختم ہونا تھا لیکن فی الحال تعطل کے باعث اس پروگرام کا مکمل ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
'ٹیکس نظام میں بہتری اور صرف غریبوں کو سبسڈی دینی ہو گی'
ڈاکٹر پاشا کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان نے ایک ہی سادہ اور ٹھیک مطالبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان کو معاشی استحکام کی جانب جانا ہے تو بجٹ میں پروگریسو ٹیکسیشن کرنا ہو گی اور غریب ترین طبقے کو رعایت دینا ہو گی۔
خیال رہے کہ پروگریسو ٹیکسیشن یا ٹیکس عائد کرنے میں ترقی پسندانہ سوچ کا معیشت میں سادہ مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ آمدن کے حساب سے ٹیکس لاگُو کرنے کا انداز اپنایا جائے۔ یعنی ٹیکس نظام ایسا ترتیب دیا جائے جس میں زائد آمدن والے پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ اور کم آمدنی والے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم رکھا جائے۔
اس سے کسی بھی معاشرے میں آمدنی میں پائی جانے والی عدم مساوات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور امیر طبقات سے حاصل کیے گئے ٹیکس سے غریب طبقات کی تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر ضروریات زندگی پوری کی جاتی ہیں۔
معاشی ماہرین کے بقول آئی ایم ایف کے مطالبے کا دوسرا حصہ معاشرے کے ضرورت مند طبقات کو ہدف بناکر ان کی مدد کرنا شامل ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ صرف اسی طبقے کو سبسڈیز فراہم کی جائیں جو اس کا حق دار ہے۔ اگر بجلی، گیس، تیل، زمین یا کسی بھی جنس کی قیمت بہت زیادہ ہے تو سبسڈیز ہر کسی کے بجائے صرف اُسی کو ملے جس کی قوتِ خرید انتہائی کم ہے۔
کئی معاشی ماہرین کے بقول پاکستان کے معاشی نظام میں ایسے زیادہ تر فوائد بااثر افراد اٹھاتے ہیں جو ٹیکس استثنیٰ اور مراعات حاصل کرتے ہیں جبکہ غریب ترین افراد کے ساتھ متوسط طبقے پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے جو کہ ناانصافی پر مبنی معاشی نظام کی علامت ہے۔
آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی کے حکومتی کوششیں تیز
آئی ایم ایف اور پاکستان کے تعلقات پر نظر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنیادی طور پر پروگرام بحالی کے امکانات اس وقت تک کم رہیں گےجب تک پاکستان بیرونی مالی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے مزید تین ارب ڈالر کا نہ صرف انتظام مکمل کرے بلکہ اس کی تحریری ضمانت بھی حاصل کر کے فنڈ کو فراہم کرے۔
دوسری جانب پاکستان کی فنڈ پروگرام بحال کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی تیز ہوتی نظر آرہی ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور اینڈریو شوفر سے ملاقات کی جس میں ترجمان وزارتِ خزانہ کے مطابق دو طرفہ معاشی، تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری سے متعلق تبادلۂ خیال ہوا۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ملاقات کا بنیادی مقصد آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے امریکی تعاون حاصل کرنا ہے۔
امید ہے کہ آئی ایم پروگرام جلد بحال ہو جائے گا: وزیر خزانہ
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کے اصلاحاتی پروگرام اور کوششوں سے پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کے لیے تمام پیشگی اقدامات کی تعمیل کر چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر ان اصلاحات میں ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرکے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
انہوں نے توقع ظاہر کی کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر جلد ہی دستخط ہوجائیں گے جس کے بعد فنڈ کے نویں جائزے کی منظوری مل جائے گی۔
ادھر آئی ایم ایف کی علاقائی معاشی منظرنامے پر جاری تازہ ترین رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ پاکستان سے آںے والے مالی بجٹ میں سبسڈی اصلاحات سمیت بامعنی مالیاتی استحکام کی توقع ہے۔
جائزے کے مطابق میکرو اکنامک استحکام کے لیے سخت مالیاتی پالیسیوں کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے یعنی حکومتی اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ترقیاتی اخراجات میں اور بھی کٹوتی کی جائے۔