رسائی کے لنکس

کیا ٹرمپ کی جیت کے بعد واقعی عمران خان کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے؟


  • ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کے بعد یہ قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کی یہ خواہش ہے کہ ٹرمپ اس معاملے میں مداخلت کریں۔
  • سن 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان بڑھنے والی قربتوں کا تعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی سے تھا: سابق سفارت کار عاقل ندیم
  • نہیں لگتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر عمران خان سے متعلق کوئی بات کریں گے: تجزیہ کار مظہر عباس
  • سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے کوئی دباؤ ڈالا تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو عمران خان کے خلاف ہی استعمال کر سکتی ہے۔

لاہور -- امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ عمران خان کو 'دوست' کہنے والے ٹرمپ اُن کی رہائی کے لیے پاکستانی حکام پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اب بہت جلد عمران خان جیل سے باہر آ جائیں گے۔

کیا واقعی ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا امریکہ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی لے گا؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے مختلف ماہرین سے بات کی ہے۔

'ٹرمپ اور عمران خان کی قربتیں امریکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے تھیں'

سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ امریکہ میں پی ٹی آئی کے حمایتی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اُن کی یہ خواہش ہے کہ ٹرمپ اس معاملے میں کوئی کردار ادا کریں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ سن 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان کے درمیان بڑھنی والی قربتوں کا تعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی سے تھا۔

اُن کے بقول امریکہ، افغانستان سے نکلنا چاہ رہا تھا اور اسے پاکستان کی ضرورت تھی۔ اسی دوران وائٹ ہاؤس اور پھر دیگر فورمز پر ہونے والی ملاقاتوں میں صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج میں ویسے ہی گرمجوشی ہے اور وہ جس سے بھی ملتے ہیں، اسے اپنا دوست کہتے ہیں۔

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے پر پاکستان سے بات ضرور کریں گے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت عمران خان کی رہائی سے متعلق کوئی مطالبہ نہیں مانے گی۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کا پاکستان کی سیاست میں کردار تو رہا ہے، لیکن اُنہیں نہیں لگتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوری طور پر اس معاملے پر کوئی بات کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کی بہت سی مصروفیات ہوتی ہیں، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی سمیت دیگر کئی اُمور پر امریکی صدر کی توجہ ہوتی ہے۔ لہذٰا یہ سمجھنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں یہ ہے کہ وہ آتے ہی عمران خان سے متعلق کوئی مطالبہ کریں گے محض خام خیالی ہے۔

اُن کے بقول امریکہ پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے اور انسانی حقوق سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی یہی تحفظات برقرار رہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلتا ہے اور وہاں سے سزا ہوتی ہے اور کوی بڑی سزا ہو جاتی ہے تو اِس چیز کا امکان ہے کہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے۔

اُن کے بقول پی ٹی آئی کے کچھ دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ اقتدار سنبھالتے ہی اپنے نمائندوں کو پاکستان بھیجیں گے اور وہ عمران خان کی رہائی کی کوشش کریں گے تو ا،س چیز کے امکانات بہت کم ہیں۔

پاکستان میں مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں حکومتی وزرا کو بھی اس نوعیت کے سوالات کا سامنا ہے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ' میں کہا کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ کوئی ایک شخص کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان نے عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ پی ٹی آئی ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی پر خوش ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ ٹرمپ نیوٹرل رہیں گے۔

اگر دباؤ آیا تو اسٹیبلشمنٹ کا ردِعمل کیا ہو گا؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ نے کوئی دباؤ ڈالا تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو عمران خان کے خلاف ہی استعمال کر سکتی ہے۔

اُن کے بقول جب سے عمران خان سیاست میں آئے ہیں، ان پر 'غیر ملکی ایجنٹ'، 'یہودی ایجنٹ' اور ایسے دیگر الزامات لگتے رہے ہیں۔ لہذٰا ان الزامات میں شدت آ سکتی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب عمران خان اور ٹرمپ دونوں طاقت میں تھے تو اُس وقت عمران خان نے امریکہ کے ساتھ معیشت کی بہتری کے لیے کوئی معاہدہ نہیں کیا نہ ہی پاکستان کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہوا۔ لیکن یہ ایک تاثر تھا کہ ٹرمپ کی اہلیہ عمران خان کی پرستار ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG