ایسے میں جب عراق اور شام کے کچھ حصوں میں جہاں دولت اسلامیہ نے خلافت کا اعلان کر رکھا ہے، داعش کے شدت پسندوں کا علاقہ سکڑتا جا رہا ہے، اہل کار اور تجزیہ کار اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ القاعدہ کوشش کر رہی ہے کہ اپنے نقصان کو فائدے میں بدل دے۔
حالیہ برسوں کے دوران، داعش نے القاعدہ کو گہن لگا دیا ہے، جب کہ عراق اور شام کے علاقے واگزار کرکے اور مغرب پر حملے کرکے، داعش کے شدت پسند اخبارات میں سرخیوں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ لیکن، ایسے آثار سامنے آ رہے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ القاعدہ اپنے آپ کو علاقائی طاقت کے طور پر منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جوشوا گیلزر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں انسداد دہشت گردی کے ایک سابق اعلیٰ سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ''شام میں القاعدہ مزید محفوظ ٹھکانے چھیننے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ وہ مقامی آبادی، دیگر حلقوں کا حصہ بن جائے، اورت ساتھ ہی دیگر طاقتوں میں ضم ہوجائیں''۔
'تحریر الشام' القاعدہ گروپ کا ایک دھڑا ہے، جو اصل میں 'النصرہ محاذ' کا حصہ رہا ہے، وہ شام میں سنی باغی دھڑے کا انتہائی طاقتور طبقہ بن چکا ہے، جس نے اپنے آپ کو شمال مغربی صوبہ ادلب کے زیادہ تر علاقوں میں پیر جما لیے ہیں۔
بریٹ مک گرک داعش کے خلاف نبردآزما امریکی قیادت والے عالمی اتحاد کے بارے میں صدارتی نمائندہ خصوصی ہیں۔ جمعرات کے روز واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے خطاب میں کہا ہے کہ ''ادلب ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع ہے اور القاعدہ کا محفوظ ٹھکانہ ہے''۔
مک گرگ نے شام میں رفتہ رفتہ القاعدہ کی مضبوطی کا الزام شام میں ہتھیاروں کی آسان دستیابی اور غیر ملکی لڑاکوں کی آمد کو قرار دیا۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکی قیادت والا اتحاد ترکی کے ساتھ کام کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ شمالی شام کی سرحد کو بند کیا جاسکے، اور مزید لڑاکوں کو خطے میں القاعدہ سے منسلک دھڑوں کے ساتھ شامل ہونے سے روکا جا سکے۔