کراچی کی بینکنگ کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن رکن قومی اسمبلی فریال تالپور کی ضمانت میں ایک بار پھر توسیع کردی ہے جب کہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت پیر کو ہونے والی اس پیش رفت کو اپنی کامیابی اور اس کا مؤقف درست ثابت ہونے سے تعبیر کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور مشیرِ اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی قیادت عدالتوں کے سامنے پیش ہوتی رہی ہے۔
ان کے بقول، "ہم بارہا کہتے تھے کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل کرنا حکومت کی بددیانتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو سیاسی انتقام کے بجائے امورِ مملکت بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔"
تاہم تجزیہ کاروں کی رائے اس سے کچھ مختلف ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنا پارٹی کے لیے مکمل ریلیف قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ان کے مطابق پیر کا دن پیپلز پارٹی کے لیے قدرے بہتر تو رہا اور بیرونِ ملک جانے پر پابندی ہٹنے سے پیپلز پارٹی کی قیادت پر دباؤ بھی ضرور کم ہوا ہے، لیکن یہ وقتی ریلیف نظر آتا ہے۔
ان کے بقول منی لانڈرنگ کیس میں جن 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر پارٹی قیادت کا حصہ یا پھر ان کے قریبی رفقا ہی ہیں۔
مجاہد بریلوی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ اندرونِ خانہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی ملک کی مقتدر طبقات کے ساتھ کوئی ڈیل ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ آصف زرداری اور ان کے رفقا کی مبینہ کرپشن کے معاملات پر حکومت، فوج یا عدلیہ کوئی ریلیف دیتی نظر نہیں آتی جب کہ ایسا لگتا ہے کہ کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ ثبوت اکھٹے کیے ہیں جن میں سے بعض کو ناقابلِ تردید کہا جارہا ہے۔
مجاہد بریلوی کے مطابق یقیناً آصف زرداری کے لیے دباؤ، مقدمات اور جیل کوئی نہیں چیزیں نہیں، لیکن ابھی پریشانی کے بادل ان کے لیے چھٹے نہیں ہیں۔ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملات نیب کو بھیجے گئے ہیں اور فی الحال کوئی ایسی وجہ نظر آتی کہ نیب ان معاملات پر کوئی سخت ایکشن نہیں لے گا۔
دوسری جانب سے تحریکِ انصاف کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالتی فیصلوں کے احترام کے بیان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ منی لانڈرنگ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ بے بنیاد ہے۔
ان کے بقول ابھی انصاف کے تقاضے پورے ہونے کے لیے مختلف مراحل باقی ہیں اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت دو درجن سے زائد ملزمان پر اس کیس میں الزام ہے کہ انہوں نے جعل سازی کے ذریعے بینک اکاؤنٹس قائم کیے اور اب تک کی تحقیقات کے مطابق 30 ارب روپے سے زائد کے کالے دھن کو سفید کیا۔
جعل سازی اور انسدادِ منی لانڈرنگ ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت قائم یہ مقدمہ کراچی کی بینکنگ کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جب کہ سپریم کورٹ بھی اس پر از خود نوٹس لے چکی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وقتی ریلیف سے پیپلز پارٹی کی قیادت اور صوبائی حکومت کو کسی قدر سنبھلنے کا موقع ضرور ملے گا۔ عدالتی اور قانونی جنگ اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی کو کارکردگی کی بنیاد پر بھی سندھ میں اپنی لڑائی لڑنی پڑے گی۔