رسائی کے لنکس

کشتی حادثے میں لاپتہ عبدالرحمان کے والد اب تک بیٹے کی واپسی کے لئے پر امید کیوں؟


یونان میں ڈوبنے والی کشتی کے ایک لاپتہ نوجوان کے والد محمد زیاب جو بیروت کے مہاجر کیمپ شتیلہ میں مقیم ہیں، ابھی تک اپنے بیٹے کی زندہ واپسی کے لئے پر امید ہیں ، فوٹواے پی 24 جون 2023
یونان میں ڈوبنے والی کشتی کے ایک لاپتہ نوجوان کے والد محمد زیاب جو بیروت کے مہاجر کیمپ شتیلہ میں مقیم ہیں، ابھی تک اپنے بیٹے کی زندہ واپسی کے لئے پر امید ہیں ، فوٹواے پی 24 جون 2023

” میں اب تک پر امید ہوں، میں اس وقت تک امید کا دامن نہیں چھوڑوں گا جب تک اپنے بیٹے کی لاش نہیں دیکھ لو ں گا، مجھے اب بھی امید ہے کہ میں اسے دیکھوں گا اور اس کی آواز سنوں گا۔”

یہ الفاظ تھے شمالی افریقہ سے اٹلی جانے والے تارکین وطن کے ڈوبنے والے جہاز کے ایک لاپتہ نوجوان عبدالرحمان کے والد محمد زیاب کے ۔

عبد الرحمان ان بہت سے دوسرے لوگوں میں شامل تھے، جو ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والے اس خستہ حال جہاز میں سوار ہوئے، جو دو مہینے پہلے چودہ جون کو وسطی بحیرہ روم میں ڈوب گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس جہاز میں لیبیا سے اٹلی جانے والے 500 سے 700 تارکین وطن سوار تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان ، شام اورمصر سے تھا ۔

صرف 104 لوگوں کو سمندر سے زندہ بچایا گیا تھا جو سب ہی مرد اور لڑکے تھے۔ 82 نعشیں سمندر سے نکالی گئی تھیں جن میں سے صرف ایک خاتون کی تھی ۔ باقی بد قسمت مسافر، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، بحیرہ روم کے سمندر میں ایسے مقام پر ڈوبے ، جہاں سمندر کی گہرائی تقریباً 4000 میٹر ہے۔ جس کا مطلب اگر جہاز میں پانچ سو تارکین وطن بھی سوار تھے، تو 314 مسافروں کا سمندر کے اس حصے سے نشان تک نہیں ملا۔

ماہی گیری کے اس جہاز کی ایک تصویر جویونان کے قریب بحیرہ روم میں ڈوب گیا تھا، فوٹو14 جون 2023
ماہی گیری کے اس جہاز کی ایک تصویر جویونان کے قریب بحیرہ روم میں ڈوب گیا تھا، فوٹو14 جون 2023

سانحوں میں متاثرین کی شناخت سے متعلق یونان کی ٹیم کے پولیس کمانڈر Lt. Col. Pantelis Themelis نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ 7 اگست تک ملنے والی نعشوں میں سے لگ بھگ 40 کی شناخت ڈی این اے تجزیے ، دانتوں کے ریکارڈ، فنگر پرنٹنگ او ر زندہ بچ جانے والوں اور رشتے داروں کے انٹرویوز کے ایک ملے جلے تفصیلی عمل کے ذریعے ہوئی۔

پولیس کمانڈر تھیملیس نے بتایا کہ یہ کام اس لیے پیچیدہ اور سست ہو گیا کہ اس بارے میں معلومات کافقدان ہے کہ اس جہاز پر کون کون سوار تھا اور اس وجہ سے بھی کہ اس پر سوار بہت سے لوگو ں کا تعلق ایسے ملکوں سے تھا جہاں جنگ اور خانہ جنگی کی وجہ سے رشتے داروں کے لیے ڈی این اے کے نمونوں کی فراہمی مشکل ہو رہی ہے ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان شناخت کے عمل میں مدد کے لیے پہلے ہی سینکڑوں ڈ ی این اے ٹیسٹوں کے نتائج بھیج چکا ہے ۔ جن ملکوں میں قریبی رشتے داروں کے انٹر ویوز اور ڈی این اے اکٹھا کرنا مشکل ہے وہاں ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ یہ کام کر رہے ہیں۔

ڈوبنے والے جہاز کے زندہ بچ جانے والے ریڈ کراس کے رضاکاروں سے بات کر رہے فوٹو اے پی ، 15 جون 2023
ڈوبنے والے جہاز کے زندہ بچ جانے والے ریڈ کراس کے رضاکاروں سے بات کر رہے فوٹو اے پی ، 15 جون 2023

کچھ لوگوں کے لیے جو اب بھی گمشدہ رشتہ داروں کی تلاش میں ہیں، دفن کرنے کے لیے لاش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی امید رکھتے ہیں کہ شاید ان کا عزیز زندہ ہو۔

ان بہت سے لوگوں میں شامل لبنان کے ایک پناہ گزین کیمپ کے رہائشی محمد زیاب جن کا 21 سالہ بیٹا عبدل رحمان ابھی تک لاپتہ ہے مسلسل پر امید ہیں کہ ان کا بیٹا ابھی زندہ ہے ۔ اس کی تلاش کےلیے وہ دو ماہ سے ہر کوشش کر چکے ہیں۔

انہوں نے گمشدہ افراد کی تلاش سے متعلق بین الاقوامی کمیشن کو ڈی این اے کا ایک نمونہ فراہم کیا ، رشتے داروں کو یونان بھیجا ، اپنے فون پر کالز کرنے اور سوشل میڈیا پر زندہ بچ جانے والوں کی ویڈیوز کو بار بار دیکھنے پر گھنٹوں صرف کیے۔

محمد زیاب اے پی کو ایک انٹر ویو میں وہ امریکی ڈالر دکھا رہے ہیں جو اسمگلروں نے انہیں واپس کیے ہیں، فوٹو اے پی ، 24جون 2023
محمد زیاب اے پی کو ایک انٹر ویو میں وہ امریکی ڈالر دکھا رہے ہیں جو اسمگلروں نے انہیں واپس کیے ہیں، فوٹو اے پی ، 24جون 2023

ایک ویڈیو میں اپنے بچے کی شکل سے ملتے جلتے شخص کو یونان کے شہر کالاماتا کے ایک ہسپتال لےجاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے ہسپتال سے رابطہ کیا لیکن ان کے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔

ان کا اصرار ہے کہ ان کا بیٹا ممکن ہے کوما میں ہو یا قید ہو اور اپنے خاندان سے رابطہ نہ کر سکتا ہو ۔ لیکن تمام زخمیوں کو بہت پہلے ہسپتال سے ڈسچار ج کر دیا گیا ہے اور زندہ بچ جانے والے جن نو افراد کو اسمگلرز ہونے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے وہ سب ہی مصری تھے۔

محمدزیاب نے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کی امید میں اپنا مال و اسباب بیچ کر اور ادھار لے کر اسمگلروں کی سات ہزار ڈالر کی فیس ادا کی تھی ۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ سفر اتنا خطرناک ہو گا۔ اور جب تک انہیں اپنے بیٹے کی موت کا یقین نہیں ہو جاتا، وہ اپنی اس امید کو توڑنے کو تیار نہیں کہ عبد ل رحمان ایک نہ ایک دن گھر واپس آئے گا۔

( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)

فورم

XS
SM
MD
LG