’’منگل کو کشتی کےعملے نے اس کا انجن بند کردیا تاکہ آس پاس سے گزرنے والے یا کوسٹ گارڈ وغیرہ کا عملہ کشتی کی آواز نہ سن سکے۔ اسی دوران کشتی ایک جانب جھکنا شروع ہوگئی اور اس میں پانی داخل ہونے لگا۔‘‘
یونان کے نزدیک سمندر میں ڈوبنے والی کشتی پر سوار پاکستانی شہری رانا بتاتے ہیں کہ ـوہ تیرنا نہیں جانتے لیکن جب کشتی ڈوبنا شروع ہوئی تو اُنہوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ کچھ دیر بعد ایک بڑے جہاز نے انہیں بچا لیا لیکن ان کی بیوی اور بچے ایک کیبن میں پھنسنے کی وجہ سے سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔
یونان کے ایک مقامی اخبار ’کیتھمرینی‘ نے گزشتہ منگل کو کشتی کے حادثے میں بچنے والوں کی کہانیاں جمع کی ہیں جن میں ایک پاکستانی شہری رانا کی بتائی گئی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ رانا اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے اسی لیے انہوں نے اپنا پورا نام بتانے سے گریز کیا ہے۔
پاکستانی شہری بتاتے ہیں کہ لیبیا سے یونان پہنچنے کے لیے ان کا سفر نو جون جمعے کو شروع ہوا تھا۔ سب لوگوں کو ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والے ایک ٹرالر پر سوار کیا گیا تھا۔
کشتی کے ایک اور سوار شامی شہری حسن نے بتایا کہ انہیں جس مچھلیاں پکڑنے والے ٹرالر پر بٹھایا گیا اس پر 500 سے 750 مسافر سوار تھے جن کا تعلق مختلف قومیتوں سے تھا۔ ٹریفکنگ میں ملوث گروہ نے ان افراد سے اٹلی پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ کشتی پر سوار لوگوں میں عملے کے 15 افراد بھی شامل تھے جو ان کے خیال میں ٹریفکنگ کرنے والے گروہ کے کارندے تھے۔
24 سالہ حسن کا کہنا ہے کہ وہ کشتی پر اکیلے ہی سوار ہوئے تھے۔ انہیں پہلے کشتی کے عرشے کے نیچے جگہ دی گئی تھی جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھا۔
کشتی میں صرف عملے کے افراد ہی کو ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانے کی اجازت تھی۔ حسن کہتے ہیں کہ انہوں نے عملے کے 15 افراد میں سے ایک کو 10 یورو دے کر عرشے کے اوپر جگہ حاصل کی۔
حسن سمیت کشتی کے دیگر مسافروں اور یونانی حکام کا اندازہ ہے کہ کشتی کا کپتان اٹلی جانے کا راستہ بھول گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ منگل کی شب سے کشتی کے کپتان نے سیٹلائٹ فون پر مدد مانگنا شروع کردی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی یونانی کشتی رات کے وقت انہیں بچانے کے لیے پہنچی تو ٹرالر ڈوبنا شروع ہو گیا تھا۔ حسن کو یونانی کوسٹ گارڈ نے پانی سے نکال کر بچایا تھا۔ منگل کی شب دو سے تین کشتیاں ڈوبنے والوں کو بچانے آئیں اور اتنی دیر میں بدھ کی صبح ہو گئی تھی لیکن کئی زندگیوں کا سورج غروب ہوچکا تھا۔
'انجن کام کرنا چھوڑ چکا تھا'
پاکستانی شہری رانا کا کہنا ہے کہ سفر شروع ہونے کے تین دن بعد سمندر میں کشتی کے انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ کشتی کے عملے نے کئی بار انجن ٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن انجن بار بار خراب ہوتا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ سفر کے دوران ہمیں بار بار پانی اور کھانا مانگنے پر بھی ضرورت کے مطابق کھانے پینے کی اشیا فراہم نہیں کی جاتی تھیں۔
پاکستانی شہری کا کہناہے کہ منگل کو کشتی پر سوار بعض مصری شہریوں نے کشتی کے پاس سے گزرنے والے ایک کمرشل جہاز سے پینے کا پانی مانگا تھا۔ جہاز کے عملے نے کشتی میں پانی کی چند بوتلیں پھینک دیں جس کے بعد کشتی کے مسافر پانی کی بوتلیں حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑ پڑے۔
رانا کے مطابق اس واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد ہی کشتی میں پانی داخل ہونا شروع ہو گیا۔ وہ تیراکی نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے پھر بھی پانی میں چھلانگ لگا دی اور بعد میں انہیں ’ا یک بڑے جہاز‘ نے آ کر بچا لیا۔ لیکن ان کے بیوی بچے کشتی میں پھنسے ہونے کی وجہ سے سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔
کشتی تک کیسے پہنچے؟
کشتی کے حادثے میں بچنے والے دونوں مسافر وں نے بتایا کہ وہ کشتی کے اس پر خطر سفر تک کیسے پہنچے۔ حسن شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک نواحی قصبے کے رہنے والے ہیں جہاں وہ تین سال لبنان میں کام کرنے کے بعد واپس لوٹے تھے۔
حسن جرمنی جانے کے خواہش مند تھے اور اسی لیے وہ لیبیا پہنچے تھے۔ لیبیا میں انہوں نے40 دن تک چھوٹے موٹے کام کیے جہاں ان کا رابطہ ٹریفکنگ کرنے والے گروہ سے ہوا جس نے انہیں ایسی ’پناہ گاہ‘ میں پہنچا دیا جہاں 300 افراد موجود تھے۔
جمعہ نو جون کو اسمگلنگ کرنے والے گروہ کے لوگ حسن سمیت ان تین سو افراد کو ایک چھوٹی کشتی میں بٹھا کر ٹرالر تک لے گئے۔ حسن بتاتے ہیں کہ یہ ٹرالر بہت پرانا اور زنگ خوردہ تھا۔
حسن کے والد نے ٹریفکنگ کرنے والوں کے ایجنٹ کو ساڑھے چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ اس ایجنٹ نے حسن کے اٹلی پہنچنے پر یہ رقم ٹریفکنگ کرنے والے گروہ کو ادا کرنا تھی۔
کشتی میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں اپنی فیملی سے محروم ہونے والے رانا کا کہنا ہے کہ انہوں ںے لیبیا میں ایک پاکستانی ساتھی کو آٹھ ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔ اٹلی میں مقیم رانا کے بھائی نے اس رقم کا انتظام کیا تھا۔ جب کہ باقی رقم اٹلی پہنچنے کے بعد ادا کرنا تھی جس کے بارے میں رانا کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ اٹلی پہنچنے پر انہیں کتنی رقم ادا کرنا تھی۔
رانا نے لیبیا میں کشتی کے مالک کے بھائی کو جو آٹھ ہزار ڈالر ادا کیے تھے سفر شروع ہونے سے قبل اس نے انہیں دو ہزار ڈالر واپس لوٹا دیے تھے۔رانا بتاتے ہیں کہ وہ دبئی اور مصر کے راستے ایک ماہ کے زمینی سفر کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ لیبیا پہنچے تھے۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس ‘ سے لی گئی ہیں۔