لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک میں کرونا وائرس کے پیشِ نظر جاری لاک ڈاؤن کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گھریلو تشدد کی شکایات درج کرانے کے لیے قائم ہیلپ لائنز پر آنے والی کالز میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ارجنٹائن کی حکومت نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 20 مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کیا تھا۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی 20 روز کے دوران 18 خواتین اپنے شوہر یا سابق شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں۔
ارجنٹائن میں خواتین کی مدد کے لیے قائم ہیلپ لائن پر آنے والی کالز میں بھی 40 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔
ارجنٹائن میں تشدد کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'مومالا' کی عہدے دار وکٹوریہ اگوائر کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں نے ہزاروں خواتین کو جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ وہ ایسے حملہ آوروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں جن سے وہ کرونا وائرس سے بھی زیادہ خوف کھاتی ہیں۔
ایک اور غیر سرکاری تنظیم کے عہدے دار ادا ریکو نے کہا کہ خواتین کے ساتھ ہر روز بد زبانی کی جاتی ہے۔ انہیں ان کے گھروں میں ہی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب ان کے شوہر یا سابق شوہر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عام دنوں میں ہم ان خواتین کی شکایت درج کرانے میں مدد کرتے ہیں۔ لیکن اب ہماری کوشش ہے کہ جتنی جلد ہو سکے ان خواتین کو گھروں سے نکالا جائے۔
ایسی ہی صورتِ حال میکسیکو، برازیل، چلی اور دیگر ممالک میں بھی ہے۔ جہاں انتظامیہ کی طرف سے گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات تو کیے جا رہے ہیں۔ لیکن ان اقدامات کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
میکسیکو میں خواتین کے قومی ادارے کی سربراہ نادین گازمان نے کہا ہے کہ 24 مارچ سے ملک میں لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے۔ تب سے خواتین کی طرف سے آنے والی ایمرجنسی کالز میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مکسیکو میں تشدد کے واقعات پر تحقیق کرنے والی ماریہ سلگویرو نے کہا ہے کہ جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، ملک میں تقریباً 200 خواتین قتل ہوئی ہیں۔
چلی میں کرونا وائرس کے باعث مخصوص علاقوں میں ہی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اور رات کے اوقات میں کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دارالحکومت سان تیاگو کے ایک علاقے میں گھریلو تشدد کی شکایات میں 500 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
چلی کے محکمۂ صحت کے ایک افسر پاؤلا ڈیزا کے مطابق گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ الکوحل کا زیادہ استعمال، دماغی مسائل، پریشانی اور ڈپریشن ہے۔
اقوامِ متحدہ کے اکنامک کمیشن برائے لاطینی امریکہ اور کیریبین کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق لاطینی امریکہ میں گزشتہ سال 3800 خواتین کو قتل کیا گیا۔ یہ تعداد سال 2018 کے مقابلے میں آٹھ فی صد زیادہ تھی۔
اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے متعدد خواتین اور لڑکیاں اپنے گھروں میں ہی تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں۔ حالانکہ انہیں وہاں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے۔
انتونیو گوتریس نے گھریلو تشدد روکنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران 'سیز فائر' کیا جائے۔