کرونا وائرس کے دوران قرنطینہ کی تنہائی سے بچنے کے لیے لوگ اپنے دوستوں، رشتے داروں کے گھروں میں رہنے لگے ہیں۔ اس عمل کو #Quaranteaming یعنی قوارنٹیمنگ کا نام دیا گیا ہے۔
وہ افراد یا جوڑے جو اکیلے رہتے ہیں وہ اپنے والدین، یا دوستوں کے بارے میں اس بات کی تصدیق کر کے کہ وہ کئی ہفتے سے ان کی طرح قرنطینہ میں ہیں اور کرونا وائرس سے محفوظ ہیں، ان کے ساتھ جا کر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے ایسے ہی دو دوستوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی شہر کیلی فورنیا کے شہری چارلز لیچا اور لو نیولین تھاوون نے یہ فیصلہ کیا کہ قرنطینہ کے دوران اکیلے رہنے کی بجائے ایک ہی گھر میں رہ کر ‘قوارنٹیمنگ‘ کریں گے۔
دونوں کا کہنا تھا کہ ان کا یہ تجربہ بہت مزے دار رہا ہے اور وہ بہت عمدہ وقت گزار رہے ہیں۔
دنیا بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران لوگ اس طریقہ کار سے مقامی احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ اکیلے پن سے چھٹکارا بھی پا سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘پرندے’ کی ڈائریکٹر سونل دھنانی کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کے دوست کرونا وائرس سے محفوظ ہیں تو ’قوارنٹیمنگ’ بہت ہی مثبت عمل ہے۔ ’اس سے موجودہ صورت حال میں ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ بے یقینی کی صورت حال گھبراہٹ اور ذہنی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔ ‘قوارنٹیمنگ’ لوگوں کو سکون اور ایسے حالات میں خوش رہنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے ذریعے ایک ساتھ رہتے ہوئے کمیونیٹی کا احساس باقی رہتا ہے۔
مختلف سماجی ویب سائٹ پر لوگ اپنی ’قوارنٹیمنگ’ کے تجربات شئیر کر رہے ہیں۔
’قوارنٹیمنگ’ کی ایک مثال امریکی ریالٹی شو ’دی بیچلریٹ’ میں شرکت کرنے والی ہانا براؤن اور ٹیلر کیمرون کی ہے جو فلوریڈا میں اپنے چار اور دوستوں کے ساتھ ایک گھر میں رہ رہے ہیں۔
یہ چھ افراد اپنے ’قوارنٹیمنگ’ کے تجربات اپنے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر قائم اکاؤنٹس پر شئیر کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اکاؤنٹس کا نام ’دی قوارنٹیم کریو’ رکھا ہے جس کے ٹک ٹاک پر ساڑھے پانچ لاکھ فالور اور انسٹاگرام پر ساڑے تین لاکھ کے قریب فالور ہیں۔
ان اکاؤنٹس پر یہ رقص، موسیقی اور قوارنٹیمنگ کے دوران گزرے اپنے خوشکن لمحات کو شئیر کرتے ہیں۔
سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک صارف کیٹلین میکارتھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ قوانٹیمنگ سال 2020 کا لفظ ہے۔
بعض ماہرین اس عمل سے دوچار خطرات کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں۔
علم بشریات کے ماہر سٹیون ایم گاڈریو نے ایک ویب سائٹ بنائی ہے جس کا عنوان ہے ’کیا میں صرف ایک دوست سے مل سکتا ہوں؟’
اس ویب سائٹ میں انہوں نے ایک گراف کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ ایک دوست سے ملنا بھی کمیونیٹی میں ایک پورے نیٹ ورک کی تشکیل دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا عمل بہت سی اموات کا باعث بن سکتا ہے۔