اگر آپ ایک ملازمت پیشہ مرد ہیں تو شاید آپ نے اپنی خواتین ساتھی ورکرز کو یہ کہتے سنا ہو کہ انہیں کام کی جگہ پر اپنا آپ منوانے کے لیے اپنے مرد ساتھیوں سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ شاید آپ کو یہ بات سن کر اچھا نہ لگا ہو۔ شاید آپ نے سوچا ہو کہ آپ جیسے مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی پسند مرد ساتھی ورکرز کے ساتھ کام کرنے کے باوجود آپ کی خواتین ساتھی کولیگز غیر ضروری طور پر حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اگر آپ ایک ملازمت پیشہ خاتون ہیں تو شاید آپ نے محسوس کیا ہو کہ آپ کو اپنے دفتر کی کسی اہم میٹنگ میں اپنا خیال یا آئیڈیا پیش کرنے میں یہ سوچ کر دقت پیش آتی ہے کہ آپ کی آواز مرد ساتھیوں کی آوازوں کے مقابلے میں سنی نہیں جائے گی۔ یا شاید آپ کا آئیڈیا دفتر کے دیگر ساتھیوں کے زیادہ پر اعتماد اور جارحانہ انداز سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کے سامنے زیادہ توجہ حاصل نہیں کر سکے گا، یا آپ کے انتہائی اچھوتے آئیڈیئے کو بے کار قرار د ے کر رد کر دیا جائے گا۔
نومبر 2020 کے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل نائب صدر کے امیدواروں کے مابین مباحثے کے دوران امریکہ کی موجودہ نائب صدر کاملا ہیرس نے سابق نائب صدر مائیک پینس کی جانب سے اپنی بات کاٹنے پر کہا ’’جناب نائب صدر، میں بات کر رہی ہوں، میں بات کر رہی ہوں۔‘‘
یہ منظر ٹیلی ویژن پر امریکہ کے ہر گھر میں دیکھا گیا۔ سوشل میڈیا پر بہت سی امریکی خواتین نے لکھا کہ کاملا ہیرس اس مباحثے میں جس رویے کا سامنا کر رہی تھیں، اسے ہر عورت اچھی طرح سمجھ سکتی ہے۔
اخبار ٹائمز نے نارتھ ویسٹرن پریٹزر اسکول آف لا کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے مرد جج، خواتین ججوں کی بات کو اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ مرتبہ کاٹتے ہیں۔
اخبار نے لکھا کہ اس ریسرچ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے کہیں یہ چھپا ہوا تعصب موجود ہے کہ کون طاقت ور ہے اور کون بہتر عہدے پر ہے، جس کی بات کو کاٹا نہیں جا سکتا۔
اس ریسرچ میں مزید بتایا گیا کہ جب ان خواتین ججوں نے اپنے عہدے پر کام شروع کیا تو انہوں نے اپنے سوالات زیادہ نرمی سے کرنا شروع کیے۔ جیسے ’مے آئی‘ یا ’ایکسکیوز می‘ جیسے الفاظ سے، جس سے مرد ججوں کو یہ موقع ملا کہ وہ ان کی بات کاٹ سکتے ہیں۔
ریسرچ میں بتایا گیا کہ اکثر خواتین ججوں نے وقت کے ساتھ نرم رویہ چھوڑ کر مرد ساتھیوں کے ساتھ کام کے لیے برابر کے مقابلے کا رویہ اپنانا شروع کر دیا۔
بزنس پروفیشنلز کے لئے مواد شائع کرنے والے آن لائن میگزین کوارٹز کے لیے اپنے ایک مضمون میں تجزیہ نگار سارا ٹوڈ نے لکھا کہ پروفیشنل زندگی میں عام طور پر ’نائس‘ یا نرم خو طبیعت کی شہرت رکھنے والی خواتین کو ان کے شعبے میں زیادہ مہارت اور قابلیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا۔
انہوں نے امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سوشیالوجسٹ میریانہ کوپر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’جو خواتین اس سماجی رویے کی تعمیل کرتی ہیں کہ خواتین کو دوستانہ اور گرم جوش رویہ اختیار کرنا چاہئے، اس کا خمیازہ انہیں ایسے بھگتنا پڑتا ہے کہ ان کی قابلیت نظرانداز ہونے لگتی ہے۔‘‘
دوسری طرف سارا لکھتی ہیں کہ اگر اس کی بجائے خواتین سخت مزاجی اپنانے لگیں تو انہیں لیڈر شپ رولز میں ترقی نہیں دی جاتی۔ ایسے میں خواتین کے لیے ایک دوہری مشکل صورتحال پیدا ہوتی ہے۔
واشنگںٹن میں کام کرنے والی ایک پاکستانی امریکی معیشت دان زینب مجوکہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کیرئیر کے وسط میں ہیں۔ ان کے مطابق آج بھی جب وہ کسی ٹیم کی سربراہی کر رہی ہوتی ہیں تو انہیں ایسا سننے کو ملتا ہے کہ ’’جتنی آپ کی عمر ہے، اتنا ہمارا تجربہ ہے۔‘‘ بقول ان کے مرد حضرات یہ فرض کر لیتے ہیں کہ انہیں معیشت اور سیاست کے بارے میں ان کے برابر علم نہیں ہے۔
انہوں نے مرد حضرات میں خواتین کے حوالے سے لاشعوری تعصب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی خاتون کسی میٹنگ میں اپنا آئیڈیا پیش کرے، تو اسے توجہ نہیں دی جاتی، لیکن وہی خیال، یا رائے اگر کوئی اور مرد کچھ دیر بعد پیش کرے، تو اسے غور سے سنا جاتا ہے، اس پر داد دی جاتی ہے۔ بقول ان کے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسے سیٹ اپ میں خواتین ’Invisible‘ ہیں، یعنی موجود ہی نہیں ہیں۔
کیٹیلسٹ لیب کے نام سے خواتین کو کاروباری شعبے میں لانے کی حوصلہ افزائی کرنے والے ایک ادارے کی سی ای او اور پاکستان سو فٹ وئیر ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور جہاں آرا نے اسی حوالے سے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سب مردوں کو ایک ہی خانے میں نہیں ڈالتیں۔
ان کے مطابق، انہیں جب بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ میں نے ایسے مردوں کی بات سن لی، پھر میں نے ان سے کہا کہ میری رائے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی آپ کی۔ بقول ان کے، ایسے حالات میں اعتماد پیدا کرنے میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مرد ساتھی ورکر بھی ہیں، جو خواتین کے ساتھ کسی کو لا شعوری امتیاز پر مبنی رویہ برتتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صحافی اور سماجی کارکن صباحت زکریا نے، جو "فیمنستانی" کے نام سے ایک وی لاگ بھی چلاتی ہیں، اس رویے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ہمارے معاشرے میں پہلے سے متعین کردہ صنفی کردار یا ’جینڈر رولز‘ کی وجہ سے ہے۔ بقول ان کے اگر خواتین اپنی رائے منوانا چاہیں تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ٹف ہیں، چڑچڑی ہیں یا مشکل ہیں‘‘، جب کہ یہی رویہ اگر مرد رکھیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ان میں لیڈرشپ کی خصوصیات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’mansplaining‘‘ یعنی مردوں کا تحقیر آمیز انداز میں خواتین کو کوئی بات سمجھانا یا غیر ضروری طور پر اپنے انداز کو خواتین کی رائے پر فوقیت دینے کا اثر یہی ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کو لیڈرشپ پوزیشن میں تسلیم نہیں کر سکتے۔
لمز یونی ورسٹی میں سماجیات کی پروفیسر ندا کرمانی کہتی ہیں کہ خواتین اگر ان رویوں کے سامنے کھڑی ہو جائیں تو انہیں ’’aggressive‘‘یا جارحانہ رویے کی حامل کہا جاتا ہے۔ مگر یہی خواتین اس کے برعکس اگر نرم خو ہوں تو ان کا الگ طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے۔ بقول ان کے ’’آپ کو کافی لانے کو کہا جائے گا۔ آپ کچھ نہیں بولتی ہیں، لوگ آپ سے خوش تو ہوتے ہیں لیکن آپ پروموٹ نہیں ہوتیں۔ آپ لیڈر کے طور پر نہیں دیکھی جاتی ہیں۔‘‘
ہارورڈ بزنس ریویو میں چھپے ایک پیپر میں امریکی فوج کی جانب سے 81 ہزار ملازمین کی کارکردگی رپورٹس پر جب تحقیق کی گئی تو پتہ یہ چلا کہ مردوں کی توصیف میں جو سب سے زیادہ خوبی بیان کی گئی، وہ ان کی تجزیہ کاری کی خصوصیت تھی۔ جب کہ خواتین کے لیے سب سے زیادہ تعریفی لفظ جو لکھا گیا، وہ ان کا compassionate یا رحم دل ہونا تھا۔
انہی پرفارمنس ریویوز میں مردوں کے بارے میں سب سے زیادہ تنقیدی لفظ ان کا بدتمیز ہونا استعمال کیا گیا، جب کہ خواتین کی خامیاں بیان کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ان کا نااہل ہونا قرار دیا گیا تھا۔
زینب مجوکہ کے مطابق اس قسم کے لاشعوری تعصب کی وجہ سے خواتین کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں سے کہیں زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ بقول ان کے، انہیں ہر میٹنگ کے لیے زیادہ تیاری کرنی پڑتی ہے اور ہر معاملے پر زیادہ سے زیادہ حقائق جمع کرنے پڑتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں، "مجھے اپنے مرد کولیگز سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ آپ کے گرنے کا انتظار کر رہے ہیں"۔
ندا کرمانی کہتی ہیں کہ ملازمت کے اس کلچر کو خواتین تو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ اس کے لیے اداروں کو کوشش کرنی ہوگی۔
صباحت زکریا کے بقول، یہ سماجی مسائل ہیں اور ان کا حل بھی سماجی ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بورڈ میٹنگ ہو رہی ہے، تو مینیجرز کا یہ کام ہے کہ وہ دیکھیں کہ خواتین کی بات کو مرد بار بار کاٹ نہ رہے ہوں۔ بقول ان کے، اداروں میں صنفی توازن رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ خواتین بھی اپنی رائے کا اظہار ایسے ہی کر سکیں جیسے مرد کرتے ہیں۔
زینب مجوکہ کا کہنا تھا کہ جب ایسے موضوعات پر ٹریننگ ہوتی ہیں تو، ان کے بقول، انہوں نے ایسے مردوں کو دیکھا ہے جو سمجھتے ہیں کہ ایسی خامیاں ان میں نہیں ہیں۔ ان کے بقول، اس کی وجہ ان کا لاشعوری تعصب ہے، جو انہیں اپنی خامیوں کا ادراک نہیں ہونے دیتا۔ ان کے بقول اس طرح کی ٹریننگ بار بار کی جانی چاہئے تاکہ لوگوں میں رفتہ رفتہ شعور آئے۔
ندا کرمانی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ لیڈرشپ رول دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب زیادہ سے زیادہ خواتین اعلیٰ عہدوں پر ہوں گی، تو خواتین کو اپنی بات سمجھانے کے لئے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔
جہاں آرا نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو رول ماڈل بنانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج بہت سی خواتین لیڈرشپ پوزیشنز پر ہیں اور وہ آنے والی خواتین کو مدد دیتی ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور ان کو لے کر چلتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین میں اب بہت اعتماد آچکا ہے۔ ان کے بقول، اب میڈیا، پینل ڈسکشن ہو یا انفرادی طور پر، ایسے موضوعات پر مکالمہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس سے قبل ایسا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ بقول ان کے بہت کم خواتین لیڈرشپ رول میں تھیں۔ جس کی وجہ سے، ان کے بقول خواتین پہلے اپنے آپ کو ثابت کرنے میں اتنی محو ہوتی تھیں کہ دوسرے کا خیال نہیں رکھ پاتی تھیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اداروں کو اپنا وژن واضح کرنا چاہیے اور اس بات کی یقین دہانی کروانی چاہئے کہ ان میں خواتین کو نیچا دکھانے یا ان کی رائے کو اہمیت نہ دینے کے رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔