دنیا میں اس وقت نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11 کر وڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
بصارت کے مسائل سے متعلق جمعرات کو جاری ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نابینا افراد کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کی وجہ آبادی اور انسانی عمر میں اضافہ ہے۔
اسی طرح ایسے افراد جن کی نظر درمیانی یا زیادہ کمزور ہے اور جسے عینک، یا کنٹیک لینسز یا آپریشن کے ذریعے درست نہیں کیا گیا ہے، ان کی تعداد بھی اس مدت کے دوران 21 کروڑ 70 لاکھ سے بڑھ کر 58 کروڑ 80 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار حتمی نہیں ہیں بلکہ ایک تخمینہ ہے۔
ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا تعلق افریقہ اور ایشیائی ملکوں سے ہوگا جہاں غربت کی فراوانی اور تعلیم کی کمی ہے ۔
صحت سے متعلق ایک جریدے ’ دی لین سیٹ گلوبل ہیلتھ جرنل ‘میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مطالعے میں دنیا کے 188 ملکوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے مقابلے میں بینائی سے محروم افراد کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ سن 1990 میں یہ تعداد 0.75 فی صد تھی جو 2015 میں گھٹ کر 0.48 رہ گئی۔
اسی طرح نظر کی درمیانی پیمانے سے زیادہ درجے کی خرابی کا تناسب بھی کم ہوا ہے۔ 1990 سے 2015 کی مدت کے دوران یہ شرح 3.83 سے کم ہو کر 2.9 ہو گئی ہے۔
اس مطالعے کے شریک مصنف روپرٹ بورنی نے، جن کا تعلق اینگلا رسکن یونیورسٹی سے ہے، خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نظر کی کمزوری اور دیگر خرابیوں میں مبتلا افراد کی تعداد میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں صحت کی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے برسوں میں نابینا افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ نہ صرف آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا بلکہ عمریں لمبی ہونے سے معاشرے میں بوڑھوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی۔ نظر کی کمزوری اور بصارت کی اکثر بیماریاں اور مسائل عموماً بڑی عمر میں پیش آتے ہیں۔
بصارت سے متعلق اس تازہ رپورٹ کا تعلق ان اعدادو شمار سے ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں۔
مصنف بورنی کا کہنا ہے کہ بصارت کی خرابی بعض صورتوں میں اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایسے افراد سڑک کے پار کھڑے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتے اور وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر کی بیماریوں اور اس کے علاج معالجے پر سرمایہ کاری کریں ۔ کیونکہ اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں میں بہتری آئے گی بلکہ وہ کام کاج کر کے معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔