بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں شورش اور سیاسی مزاحمت کو کچلنے کے لیے نافذ قانون 'ان لا فل ایکٹویٹیز پریونشن ایکٹ 1967' (یو اے پی اے) کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس روش کی شدید مخالفت کی ہے اور بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو ختم کر کے متنازع ہمالیائی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے خلاف وادی میں شدید احتجاج سامنے آیا۔
حکومت نے احتجاج کو روکنے کے لیے یو اے پی اے نافذ کیا اور اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی سلامتی قوانین کو بھارت کی پارلیمان نے ملک کے اقتدارِ اعلیٰ کو بچانے اور اس کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے منظور کیا ہے۔
بھارتی حکومت کا مؤقف ہے کہ ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے حکومت اپنے شہریوں کے دفاع کی پابند ہے اس لیے وہ سرحد پار سے جاری مبینہ دہشت گردی کا توڑ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے۔
یو اے پی اے کیا ہے؟
بھارتی پارلیمان نے یو اے پی اے قانون کو 1967 میں ایسی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے منظور کیا تھا جس سے بھارت کی خود مختاری اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہو۔ بعدازاں 2004 میں اس قانون میں ترمیم کر کے اسے مزید سخت بنایا گیا تاکہ دہشت گردی یا عسکریت پسندی سے جڑی سرگرمیوں کا انسداد کیا جا سکے۔
یو اے پی اے کے تحت کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی تائید و حمایت کرنے، اس کے لیے اکسانے یا دوسروں کو اس کی ترغیب دلانے کا جرم ثابت ہونے پر سات سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔
جموں و کشمیر میں گزشتہ تین برس میں کم ازکم 2500 افراد پر یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے جو بھارت میں کسی ایک علاقے یا ریاست میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
سن 2020 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے سیکڑوں افراد کے خلاف یو اے پی اے کے تحت معاملات درج کیے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں منی پور اور آسام کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں مذکورہ قانون کے تحت لوگوں پر مقدمات درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے واقعات میں حالیہ برسوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
بیورو کے مطابق جموں و کشمیر میں 2016 اور 2019 کے درمیان یو اے پی اے کے تحت 921 مقدمات درج ہوئے۔
تاہم مقامی انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں گزشتہ تین برس کے دوران تقریباً ڈھائی ہزار افراد کو یو ا ے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے 918 افراد کو 2019 میں درج کیے گیے 437 مقدمات میں اور 953 افراد کو 2020 میں درج کردہ 557 مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔
حراست میں لیے گئے باقی ماندہ افراد کو رواں برس کے ابتدائی گیارہ ماہ کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔
علاقے میں نہ صرف شہریوں پر یو اے پی اے کے تحت مقدمات درج ہو رہے ہیں بلکہ ملزمان کی جائیدادیں بھی ضبط کی جارہی ہیں۔
علاوہ ازیں جموں و کشمیر میں 1978 سے نافذ سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت 2019 سے اب تک تقریباً 150 افراد کو حراست میں لے کر نظر بند کیا گیا ہے۔
پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر عدالت میں مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔
تاہم یو اے پی اے کے مقابلے میں پی ایس اے کے تحت عمل میں لائی جانے والی گرفتاریوں میں گزشتہ تین برسوں میں کمی آئی ہے۔
صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی مبینہ طور پر زیرِ عتاب
یو اے پی اے کے تحت صحافیوں پر بھی مقدمے قائم ہوئے اور ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے کام کے ذریعے شرپسندوں کو تشدد کے لیے اکسا رہے ہیں۔
جن سرکردہ افراد ک خلاف حالیہ عرصے کے دوران یو اے پی اے استعمال کیا گیا ان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف کارکن خّرم پرویز بھی شامل ہیں۔
بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ ماہ انہیں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کا تعلق مختلف نام نہاد غیر سرکاری تنظیموں اور ٹرسٹس کی طرف سے بھارت اور غیر ممالک میں امدادی اور خیراتی کاموں کے نام پر اکٹھا کی جانے والی بھاری رقوم کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے سے ہے۔
اس سے پہلے بھارت کے ایک سرکردہ انسانی حقوق اور سماجی کارکن گوتم نولکھا کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ بھارت کے زیرِ انتظام ریاست بالخصوص فوج کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے تھے۔
اسی طرح کے ایک مقدمے کا شکار بننے والوں میں صحافی گوہر گیلانی بھی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "صحافتی برادری اور انسانی حقوق کارکنوں پر قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں۔ ایک طرح سے کشمیر کی کہانیوں کو قابو میں رکھنے، اسے گھٹانے بلکہ اس کا یکسر خاتمہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ "صحافت اور صحافی حالیہ برسوں میں ایک نئی پریشان کُن صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہوں، سیلف سنسرشپ سے گزر رہے ہوں، آپ کے خلاف کیسز درج کر کے فرضی الزامات کے تحت آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں صحافیوں پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔"
انسانی حقوق کے کارکن خرّم پرویز کی گرفتاری پر مقامی سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے دفتر کے ترجمان روپرٹ کولویل نے خّرم پرویز کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جموں و کشمیر اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں، صحافیوں اور دوسرے ناقدین کے کام کو دبانے کے لیے یو اے پی اے کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
روپرٹ کولویل کے بیان پر نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن دفتر کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسے سرحد پار سے ہونے والی مبینہ دہشت گردی سے بھارت کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا ادراک نہیں۔
تاہم بعض ناقدین کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں پہلے مخصوص سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کو سخت گیر قوانین کا سہارا لے کر ہدف بنایا جا رہا تھا لیکن اب ہر طبقے کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔
سول سوسائٹی کی سرکردہ کارکن پروفیسر حمیدہ نعیم کہتی ہیں "کشمیر میں لوگوں نے ایک حق کی مانگ کی تھی، حقِ استصوابِ رائے کی۔ انہیں یہ حق دینے کے بجائے ان کے دیگر حقوق چھینے جارہے ہیں۔"
حمیدہ نعیم کا یہ بھی کہنا ہے" سب سے زیادہ یہاں کی خواتین مسلسل تین دہائیوں سے جاری تشدد کے نتیجے میں تکالیف اٹھا رہی ہیں۔ یہ عورت ہی ہے جس کا بیٹا چھین لیا جاتا ہے، جس کا شوہر چھین لیا جاتا ہے، جس کا گھر اجاڑا جاتا ہے، جس کی پرائیویسی ختم کی جاتی ہے، جس کا ریپ کیا جاتا ہے۔"
دوسری جانب بھارتی حکومت اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا دفاع کرتی ہے اور انہیں عوام کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری نبھانے اور علاقے کو تین دہائیوں سے جاری شورش سے نجات دلانے اور تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔
جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنرمنوج سنہا کا کہنا ہے "ہم وفاق کے زیرِ انتظام علاقے کو کم سے کم مدت میں تشدد سے پاک کر کے تعمیر و ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ 'نیا کشمیر' کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔