واشنگٹن —
اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے کا کہنا ہے کہ ٹیکوں کی مہم موت کا باعث بننے والے امراض سے بچاؤ کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں؛ جس سے ہر سال 20 سے 30 لاکھ افراد کی جانیں بچ جاتی ہیں۔
لیزا شلائین، جنیوا میں قائم ’ڈبلیو ایچ او‘ کے صدر دفتر سے اپنی رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ ادارہ متعدی بیماریوں سے بچاؤ کی ہفتہ وار سالانہ مہم کا آغاز کرنے والا ہے۔ ادارے نے اطفال اور نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ خطرناک اور اپاہج کر دینے والی بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لازمی طور پر لگوائے جانے چاہئیں۔
سنہ 1974میں عالمی ادارہٴصحت نے بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کا ایک وسیع تر پروگرام شروع کیا، جب ادارے نے فوتگی کا سبب بننے والے عارضوں کے خلاف مہم کے دوران محض پانچ فی صد بچوں کو ٹیکے لگائے۔ یہ بیماریاں خناق، خسرہ اور کالی کھانسی تھیں۔
چالیس برس بعد، 80 فی صد سے زائد لوگوں کو زندگی بچانے والی ادویات فراہم ہو رہی ہیں۔
مزید یہ کہ ادارہٴصحت نے اس طرف دھیان مبذول کرایا ہے کہ مختلف عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کو علاج کے قابل عارضوں کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
ٹیکوں اور حیاتیات سے متعلق کام کے سربراہ، ژاں ماری اکوبیلے کا کہنا ہے کہ ٹیکوں کی فراہمی کا کام دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کی طرح کا معاملہ ہے۔
ڈاکٹر بیلے کہتے ہیں کہ پولیو کے انسداد کا کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ افریقہ میں خسرہ ڈرامائی طور پر ختم ہوتا جا رہا ہے، جب کہ یہ بیماری امریکی بر اعظم اور بحر الکاہل، بشمول
چین، ختم ہونے کو ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افریقہ میں گردن توڑ بخار سے بچاؤ کا ٹیکہ ایک مجرب علاج ثابت ہوچکا ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ٹیکے لگانے کے عالمی ہفتے کے دوران، انگولا اور کونگو برازاویل ’روٹو وائرس‘ سے بچاؤ کے ٹیکوں کی مہم کو اپنی قومی صحت عامہ کے نظام کا حصہ بنانے والے ہیں۔
ایسے میں جب یہ اور کامیابی کی دیگر کہانیاں خوشی کا احساس دلاتی ہیں، وہاں عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں کو، جنھیں یہ بنیادی سہولت دستیاب نہیں، اُنھیں شامل کرنے کے لیے اس مہم کو وسیع کیا جانا چاہیئے۔
عالمی ادارہ صحت کے ٹیکوں، ویکسین اور بایولوجیکلز سے متعلق تکنیکی اہل کار، ٹریسی گُڈمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں لوگ سہل پسندی اور تساہل کا شکار نہ ہوجائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ قابل علاج امراض جن کا ٹیکوں سے انسداد ممکن ہے، پھر نمودار ہوسکتے ہیں اگر کسی کمیونٹی میں افراد کی کچھ تعداد نے ٹیکے نہ لگوائے ہوں۔
لیزا شلائین، جنیوا میں قائم ’ڈبلیو ایچ او‘ کے صدر دفتر سے اپنی رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ ادارہ متعدی بیماریوں سے بچاؤ کی ہفتہ وار سالانہ مہم کا آغاز کرنے والا ہے۔ ادارے نے اطفال اور نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ خطرناک اور اپاہج کر دینے والی بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لازمی طور پر لگوائے جانے چاہئیں۔
سنہ 1974میں عالمی ادارہٴصحت نے بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے کا ایک وسیع تر پروگرام شروع کیا، جب ادارے نے فوتگی کا سبب بننے والے عارضوں کے خلاف مہم کے دوران محض پانچ فی صد بچوں کو ٹیکے لگائے۔ یہ بیماریاں خناق، خسرہ اور کالی کھانسی تھیں۔
چالیس برس بعد، 80 فی صد سے زائد لوگوں کو زندگی بچانے والی ادویات فراہم ہو رہی ہیں۔
مزید یہ کہ ادارہٴصحت نے اس طرف دھیان مبذول کرایا ہے کہ مختلف عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کو علاج کے قابل عارضوں کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
ٹیکوں اور حیاتیات سے متعلق کام کے سربراہ، ژاں ماری اکوبیلے کا کہنا ہے کہ ٹیکوں کی فراہمی کا کام دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کی طرح کا معاملہ ہے۔
ڈاکٹر بیلے کہتے ہیں کہ پولیو کے انسداد کا کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ افریقہ میں خسرہ ڈرامائی طور پر ختم ہوتا جا رہا ہے، جب کہ یہ بیماری امریکی بر اعظم اور بحر الکاہل، بشمول
چین، ختم ہونے کو ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افریقہ میں گردن توڑ بخار سے بچاؤ کا ٹیکہ ایک مجرب علاج ثابت ہوچکا ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ٹیکے لگانے کے عالمی ہفتے کے دوران، انگولا اور کونگو برازاویل ’روٹو وائرس‘ سے بچاؤ کے ٹیکوں کی مہم کو اپنی قومی صحت عامہ کے نظام کا حصہ بنانے والے ہیں۔
ایسے میں جب یہ اور کامیابی کی دیگر کہانیاں خوشی کا احساس دلاتی ہیں، وہاں عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں کو، جنھیں یہ بنیادی سہولت دستیاب نہیں، اُنھیں شامل کرنے کے لیے اس مہم کو وسیع کیا جانا چاہیئے۔
عالمی ادارہ صحت کے ٹیکوں، ویکسین اور بایولوجیکلز سے متعلق تکنیکی اہل کار، ٹریسی گُڈمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں لوگ سہل پسندی اور تساہل کا شکار نہ ہوجائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ قابل علاج امراض جن کا ٹیکوں سے انسداد ممکن ہے، پھر نمودار ہوسکتے ہیں اگر کسی کمیونٹی میں افراد کی کچھ تعداد نے ٹیکے نہ لگوائے ہوں۔