عراق میں ایرانی کرد اپوزیشن کے ٹھکانوں پر پاسدارن انقلاب کے فضائی حملے
شمالی عراق میں ایرانی کرد اپوزیشن گروپ کے ٹھکانوں کو ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے اتوار کی رات دیر گئے نشانہ بنایا۔
عراق میں جلاوطن کرد ایرانی گروپ ڈیموکریٹک پارٹی آف ایرانی کردستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے کویا اور جیجن کان میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور ڈرونز سے اس کے اڈوں اور ملحقہ پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا۔
گروپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حملوں نے کویا کے ایک اسپتال کو نشانہ بنایا۔
عراق کے کرد چینل رودا ٹی وی نے پارٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گروپ کا ایک رکن کویا پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہوگیا ہے ۔
ایک اور مخالف گروپ کومالا نے کہا کہ اس کے ٹھکانے پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اس نے سلیمانیہ کے جنوب میں تباہ شدہ عمارتوں کی ویڈیو شیئر کی۔
ایران کے نیم فوجی پاسداران انقلاب کی ویب سائٹ نے پیر کو شمالی عراق میں علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروپوں پر میزائل اور ڈرون حملوں کے نئے سلسلے کی تصدیق کی ہے۔
امریکہ نے تازہ ترین ایرانی حملوں کی مذمت کی ہے۔
ایران کا طالبان سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کمشن بنانے کا مطالبہ
افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی نمائندے حسن کاظمی قومی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایک کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی تسنیم نیوز ایجنسی نے حسن کاظمی قومی کے حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی کمی اس کے پڑوسیوں اور پورے خطے کو متاثر کرتی ہے۔
افغانستان میں ایران کے خصوصی نمائندے نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایران اور افغانستان کی مشترکہ سیکورٹی اور معلومات کے تبادلے کی کمیٹی تشکیل دینا ضروری ہے۔
افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے: عالمی ریڈ کراس کمیٹی
افغانستان میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
آئی سی آر سی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اقتصادی چیلنجز اور اب سرد موسم لاکھوں افراد کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی فوری ضرورت ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ایک سینئر اہل کار نے اے پی کو بتا یا ہے کہ افغان اپنی زندگیوں کے لیے جدوجہد کریں گے کیونکہ ملک کو طالبان کے زیر اثر دوسرے موسم سرما کا سامنا ہے اور انسانی صورت حال مسلسل بگڑ رہی ہے۔
چار ہزار سے زائد پاکستانی فوجی ورلڈ کپ فٹبال مقابلوں کو سیکیورٹی فراہم کریں گے
پاکستان کی قومی ٹیموں نے کبھی بھی فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کیا لیکن اس کے تیار کیے گئے فٹ بال ان مقابلوں میں استعمال ہوتے ہیں اور پہلی بارپاکستان کے ہزاروں فوجی قطر میں جاری مقابلے کی حفاظت پر مامور ہیں ۔
پاکستان ورلڈ کپ کے تحفط کو یقینی بنانے کے سلسلے میں تعاون کرنے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔
پاکستانی دستے میں فوج، فضائیہ اور بحریہ کے مختلف عہدوں کے چار ہزار سے زائد فوجی شامل ہیں۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کے ملک میں ورلڈ کپ کے اسٹیڈیم اور ہوٹلوں کو محفوظ بنانے میں سب سے بڑا معاون ہے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، اردن، کویت، فلسطینی علاقے،پولینڈ، سعودی عرب،اسپین، ترکی اور امریکہ سیکیورٹی مشن کے معاونوں میں شامل ہیں۔
اس میگا ایونٹ کا آغاز اتوار کو چھوٹی خلیجی ریاست کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا جس میں تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے مقابلے کے دوران بارہ لاکھ سے زائد افراد کی میزبانی کی توقع ہے۔
یہ ایونٹ 18 دسمبر تک جاری رہے گا۔