واشنگٹن —
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین تہران کے جوہری پروگرام پر قازقستان میں ہونے والے دو روزہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کےختم ہوگئے ہیں۔
مغربی سفارت کاروں کے مطابق ہفتے کو مذاکرات کے دوسرے روز بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہے اور تنازع کے تصفیے کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
مذاکرات میں ایران کے علاوہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین- اور جرمنی پر مشتمل 'پی5+1' گروپ کے اعلیٰ نمائندے شریک تھے۔
مذاکرات میں شریک عالمی طاقتوں کی اعلیٰ ترین مذاکرات کار اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرائن ایشٹن کے بقول "فریقین کے مابین فاصلے برقرار ہیں"۔
قازقستان کے دارالحکومت الماتے میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں ایشٹن نے بتایا کہ دو روزہ مذاکرات کے دوران میں سفارت کاروں نے اعتماد سازی کے لیے تجویز کردہ اقدامات سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مذاکرات کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ایران کے اعلیٰ ترین مذاکرات سعید جلیلی کا کہنا تھا کہ تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین بعض معاملات پر اختلافات برقرار ہیں لیکن ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر اعتماد سازی کی گنجائش موجود ہے۔
ایرانی سفارت کار نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات کے دوران میں ان کے وفد نےآئندہ کے اقدامات تجویز کردیے ہیں جن پر مخالف فریق راضی نہیں تھے اور انہوں نے ایرانی تجاویز پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔
روس کے نمائندے اور نائب وزیرِ خارجہ سرجئی ریابوکوف نے مذاکرات کو "ایک قدم آگے" قرار دیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں روسی نائب وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران کا یہ مطالبہ کی یورینیم افزودہ کرنے کا اس کا حق تسلیم کیا جائے مذاکرات کے آگے بڑھنے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تاحال مذاکرات کے آئندہ دور کی تاریخ اور مقام کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایرانی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ایران کا اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی فوجی جہت نہیں۔
مغربی سفارت کاروں کے مطابق ہفتے کو مذاکرات کے دوسرے روز بھی فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم رہے اور تنازع کے تصفیے کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
مذاکرات میں ایران کے علاوہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین- اور جرمنی پر مشتمل 'پی5+1' گروپ کے اعلیٰ نمائندے شریک تھے۔
مذاکرات میں شریک عالمی طاقتوں کی اعلیٰ ترین مذاکرات کار اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرائن ایشٹن کے بقول "فریقین کے مابین فاصلے برقرار ہیں"۔
قازقستان کے دارالحکومت الماتے میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں ایشٹن نے بتایا کہ دو روزہ مذاکرات کے دوران میں سفارت کاروں نے اعتماد سازی کے لیے تجویز کردہ اقدامات سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔
مذاکرات کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ایران کے اعلیٰ ترین مذاکرات سعید جلیلی کا کہنا تھا کہ تہران اور عالمی طاقتوں کے مابین بعض معاملات پر اختلافات برقرار ہیں لیکن ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر اعتماد سازی کی گنجائش موجود ہے۔
ایرانی سفارت کار نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات کے دوران میں ان کے وفد نےآئندہ کے اقدامات تجویز کردیے ہیں جن پر مخالف فریق راضی نہیں تھے اور انہوں نے ایرانی تجاویز پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔
روس کے نمائندے اور نائب وزیرِ خارجہ سرجئی ریابوکوف نے مذاکرات کو "ایک قدم آگے" قرار دیا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں روسی نائب وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایران کا یہ مطالبہ کی یورینیم افزودہ کرنے کا اس کا حق تسلیم کیا جائے مذاکرات کے آگے بڑھنے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تاحال مذاکرات کے آئندہ دور کی تاریخ اور مقام کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا الزام ہے کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی مقصد کے لیے ایرانی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن ایران کا اصرار رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سراسر پرامن مقاصد کے لیے ہے جس کی کوئی فوجی جہت نہیں۔