امریکی محکمہٴخارجہ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ مختلف دہشت گرد تنظیموں اور دیگر غیر ریاستی گروہوں نے مشرق وسطیٰ، صحرائے افریقہ اور ایشیا بھر میں مذہبی گروپوں کے ساتھ ’سخت گیر اور نفرت آمیز سلوک‘ روا رکھا ہے۔
بین الاقوامی آزادی مذہبی کے بارے میں سترہویں سالانہ رپورٹ میں، محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ اِن تین خطوں میں زیادتی اور امتیاز کی بنا پر مذہبی گروپوں کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے، جس کی بنیاد ’مذہبی عدم برداشت اور عناد ہے، جو اکثر سیاسی، معاشی اور نسلی اعتراضات کے باعث سامنے آتا ہے، جو پُرتشدد واقعات کی صورت اختیار کرتا ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ حکومتیں ’یا تو چپ سادھ لیتی ہیں یا اقدام لینے کے اختیار سے عاری ہوتی ہیں، جس کا نتیجہ ہلاکتوں، زخم آنے یا بے دخل ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے‘۔
محکمہٴخارجہ نے عراق اور شام میں مذہبی آزادی کی بے توقیری کا ذمہ دار دولت اسلامیہ کو قرار دیا ہے۔
اس میں عراق کے شہر موصل کی مثال دی ہے جہاں ایک باغی نے ایک مسیحی ماں کی گود سے اُس کی ساڑھے تین برس کی بچی جھپٹ لی اور ماں کو واپس بس میں ٹھونس دیا، اس دھمکی کے ساتھ حکم عدولی کہ صورت میں بچی کو ذبح کر دیا جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کےبعد، ماں کو اب تک یہ پتا نہیں لگ سکا آیا اس کی بچی کس حال میں ہے۔
رپورٹ میں یہ مثال بھی دی گئی ہے کہ عراق میں شیعہ ملیشیاؤں، شام میں النصرہ محاذ، نائیجیریا میں بوکو حرام، پاکستان میں لشکر جھنگوی، فرانس اور جرمنی میں یہودی مخالفت اور میانمار میں، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، روہنگیا اقلیت کے ساتھ زیادتیاں اور امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ جاری کرتے ہوئے، امریکی سفیر خصوصی برائے بین الاقوامی آزادی مذاہب، ڈیوڈ سپرسٹائین نے کہا ہے کہ مذہبی اعتبار سے پسے ہوئے لوگوں کے آواز کو اہمیت دینے کی انتہائی اور واضح ضرورت ہے، جو اپنے عقائد کے اظہار کے بارے میں بات کرنے سے ججھکتے ہیں؛ جو موت کے سایے میں جیتے ہیں، جو زیر زمین گرجا گھروں، مساجد یا مندروں میں عبادت پر مجبور ہیں، وہ اس حد تک مایوسی کا شکار ہیں کہ ہلاکت اور اذیت سے بچنے کے لیے وہ اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے لحاظ سے خدا سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں یا پھر خدا کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں‘۔