رسائی کے لنکس

آمو حاجی کا انتقال، 'دنیا کا گندا ترین شخص' کیوں کہا جاتا تھا؟


آمو حاجی تنہا زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے لگ بھگ 70 برس سے خود کو پانی سے دور رکھا ہوا تھا تاکہ انہیں نہانا نہ پڑے یا صفائی کے لیے پانی استعمال نہ کرنا پڑے۔
آمو حاجی تنہا زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے لگ بھگ 70 برس سے خود کو پانی سے دور رکھا ہوا تھا تاکہ انہیں نہانا نہ پڑے یا صفائی کے لیے پانی استعمال نہ کرنا پڑے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 'دنیا کا گندا ترین شخص' کہلائے جانے والے آمو حاجی کا 94 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔

ایرانی خبر رساں ادارے 'ارنا' کے مطابق آمو حاجی ایران کے جنوبی صوبے فارس میں ایک گاؤں دیجگاہ میں مقیم تھے جہاں کے مکینوں نے اتوار کو ان کی موت کی تصدیق کی تھی۔

آمو حاجی تنہا زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے لگ بھگ 70 برس سے خود کو پانی سے دور رکھا ہوا تھا تاکہ انہیں نہانا نہ پڑے یا صفائی کے لیے پانی استعمال نہ کرنا پڑے۔

'ارنا' نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ آمو حاجی نہانے سے اس لیے کتراتے تھے کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ نہانے کی صورت میں وہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔

رپورٹس کے مطابق چند ماہ قبل ہی مقامی افراد آمو حاجی کو نہلانے میں کامیاب ہوئے تھے جو لگ بھگ 70 برس بعد ان کا پہلا غسل تھا۔

خیال رہے کہ آمو حاجی اپنے طرزِ زندگی کی وجہ سے خبروں کی زینت بھی بنتے رہے تھے اور 2013 میں ان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم 'دی اسٹرینج لائف آف آمو حاجی' بھی ریلیز ہوئی تھی۔

آمو حاجی غذا میں صاف پانی یا تازہ کھانا پسند نہیں کرتے تھے اس کے باوجود ایک صحت مند زندگی گزار رہے تھے۔

مقامی ڈاکٹر حیرت انگیز طور پر ان کے صحت مند ہونے کی رپورٹس دیتے تھے کہ وہ اس گندگی میں بھی خود کو صحت مند رکھے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹروں نے آمو حاجی کے کئی میڈیکل ٹیسٹ اس خدشے کے پیشِ نظر کیے کہ کہیں انہیں ہیپٹائٹس یا ایڈز جیسی بیماریاں تو لاحق نہیں۔ لیکن میڈیکل رپورٹس میں بھی ایسی کوئی بیماری سامنے نہیں آئی۔

آمو حاجی کثرت سے تمباکو نوشی کرتے تھے اور ایک وقت میں کئی سگریٹ ایک ساتھ پیتے تھے۔ انہیں گاؤں کے چند افراد نے آبادی سے دور ایک کمرہ تعمیر کرکے دے رکھا تھا جہاں وہ زندگی گزار رہے تھے۔

شدید سردی میں وہ کئی پرانے کپڑے اوڑھ کر خود کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھتے تھے۔ پینے کے پانی کے لیے وہ ایک ٹین کے ڈبے کا استعمال کرتے تھے اور اسی کو اپنے لیے صحت بخش قرار دیتے تھے۔

آمو حاجی دہائیوں تک نہائے تو انہیں تھے لیکن انہیں اپنی خوبصورتی کا خیال ضرور رہتا تھا۔ اس لیے وہ اپنے بالوں کی تراش خراش کرتے رہتے تھے۔

وہ اپنی خواہش کے مطابق بال چھوٹے کرنے کے لیے انہیں آگ سے جلاتے تھے اور اکثر گاڑیوں کے ٹوٹے ہوئے آئینے سے خود کو دیکھتے رہتے تھے۔

مقامی افراد کے مطابق آمو حاجی تنہا پسند تھے اور بعض اوقات انہیں لوگوں کی جانب سے نفرت کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔

XS
SM
MD
LG