’ٹوائلٹ کا عالمی دن‘ پاکستان کے لئے نہایت اہم ہونے کے باوجود یہاں خاموشی سے گزر گیا۔ میڈیا معاشرے کی اکثریت کی مخالفت کے بعد باوجود ہر سال ’ویلنٹائن ڈے‘ پر انتہائی جوش و خروش کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر پروگرام پیش کرتا ہے، لیکن ٹوائلٹ کے عالمی دن پر اس بار میڈیا نے ’رسمی کردار‘ بھی پوری طرح ادا نہیں کیا۔ حکومت کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کی سرد مہری دیکھی گئی۔
دنیا بھر میں ہر سال 19 نومبر کو ’ورلڈ ٹوائلٹ ڈے‘ یعنی بیت الخلاء کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں حفظانِ صحت سے متعلق آگہی پیدا کرنا ہے لیکن مشاہدے کے مطابق یہ دن پاکستان میں خاموشی سے گزر گیا، کسی نے بھی اس دن کی اہمیت کو سنجیدگی سے نہیں لیا، حالانکہ پاکستان جیسے ترقی یافتہ ملک کے لئے جہاں صرف کچھ فیصد گھروں میں ہی بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے، اس مسئلے سے متعلق آگاہی نہایت ضروری ہے۔
تحقیق کے مطابق پاکستان میں سن 1990 میں 24 فیصد اور سن 2015 میں 64 فیصد لوگوں کو محفوظ بیت الخلاء اور حفظانِ صحت یا 'سینی ٹیشن' کی سہولت میسر تھی۔ گویا یہ سہولت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی ہے، لیکن اسے تسلی بخش یا اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آج بھی سندھ اور پنجاب کے دیہات میں قائم اسکولوں کی بڑی تعداد بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہے۔ رفع حاجت کے لئے ملک کی سوا کروڑ خواتین کو ہر روز اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے، ان کے جسم میں بیماریاں پنپنے لگتی ہیں۔
وہ کھیت کھلیانوں، ریلوے لائن یا ایسی ہی کسی جگہ کا رخ کرتی ہیں۔ کھلی فضاء میں رفع حاجت پوری کرنے کے سبب خواتین جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بننا پڑتا ہے۔
دیہات کے ساتھ ساتھ شہرو ں میں بھی صورتحال خراب ہے۔ کوئٹہ صوبہ بلوچستان کا صدر مقام اور ملک کا چوتھا اہم شہر شمار ہوتا ہے، لیکن کوئٹہ میں بھی عوامی بیت الخلاء سے متعلق صورتحال اطمینان بخش نہیں۔
شہر کی آبادی 25 لاکھ سے زائد ہےجن کے استعمال کے لئے 20 سال پہلے شہری انتظامیہ کی جانب سے 42 پبلک ٹوائلٹ بنائے گئے تھے لیکن ڈپٹی میئر کوئٹہ محمد یونس بلوچ کے مطابق بیت الخلاء کی زمینوں پر مافیانےقبضہ کرکے ان پر عمارتیں تعمیر کردی ہیں اور سالوں گزر جانے کے سبب ان سے قبضہ واپس لینا کوئی آسان کام نہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حال یہ ہے کہ1999 میں سی پی ایل سی نے شہر بھر میں 200 بیت الخلاء تعمیر کرنے کے منصوبے پر درآمد شروع کیا تھا لیکن 16 سال گزر جانے کے باوجود 200 میں سے صرف 44 بیت الخلا ہی تعمیر کئے جاسکے ہیں۔
شہر کی بے شمار مارکیٹس اور مقامات ایسے ہیں جہاں یومیہ ہزاروں مرد و عورتیں آتی ہیں، لیکن کہیں بھی انہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ جن ایک دو علاقوں میں یہ عوامی بیت الخلا ہیں بھی تو ان کی حالت، صفائی ستھرائی کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ خواتین انہیں استعمال نہیں کرتیں جبکہ مردوں کی بھیڑ اور انہیں حراساں کئے جانے کے سبب وہ انہیں استعمال ہی نہیں کرسکتیں۔
سندھ حکومت نے رواں سال صوبے کی پہلی 'سینی ٹیشن پالیسی' ترتیب دی ہے جس کے تحت ’صاف ستھرا سندھ‘ مہم چلانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ پالیسی میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ سن 2025ء تک سندھ کے 21 اضلاح کے 70 فیصد دیہات کے رہائشیوں کو رفع حاجت کے لئے کھلی فضاء میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
یہ پالیسی پرونشیل پبلک ہیلتھ اینڈ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے تیار کی تھی۔ پالیسی کے مطابق گھروں میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بیت الخلا کی سہولیات بہم پہچانے پر زور دیا گیا تھا۔ لیکن، حکومتی کارکردگی اور ملکی ترقیات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں فی الحال ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا کہ جس سے یہ اعتماد ملے کہ 'سینی ٹیشن پالیسی' پر پوری طرح عمل درآمد ہو سکے گا۔
عالمی صورتحال
عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کا کہنا ہے کہ دنیا کی تقریباً 60فیصد آبادی کو جس کی تعداد ساڑھے چار بلین بنتی ہے انہیں اپنے ہی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ نا ہی ان کے پاس رفع حاجت کے لئے کوئی محفوظ جگہ ہے۔
ان اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے 862 ملین افراد اب بھی رفع حاجت کھلی فضاء میں پوری کرنے پر مجبور ہیں جبکہ صرف 39 فیصد لوگوں کے پاس محفوظ بیت الخلاء دستیاب ہیں۔ یہ تعداددنیا کی کل آبادی کا صرف 2اعشاریہ 9بنتی ہے۔
محفوظ بیت الخلاء کی سہولت بہم پہنچانے کے سبب دنیا میں ہر سال 8 لاکھ 42 ہزار افراد کو موت کا شکار ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب 'انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن' (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کے سبب ہر سال 4 لاکھ مزدور دم توڑ جاتے ہیں۔