شی جنپنگ کو غیر معینہ مدت کے لیے چین کا دوبارہ صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔
چین کی نیشنل پیپلز کانگرس نے شی کے ایک دیرینہ ساتھی وانگ قشن کو چین کا نائب صدر مقرر کر دیا گیا ہے۔
64 سالہ شی کو ماؤزے تنگ کے بعد چین کا سب سے طاقتور رہنما تصور کیا جاتا ہے اور گزشتہ ہفتے ہی انہیں یہ اختیار تفویض کیا گیا تھا کہ وہ غیر معینہ مدت کے لیے اپنے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔
یہ اقدام چینی قانون سازوں کی طرف سے صدر اور نائب صدر کے عہدے کی مدت پر عائد پابندی ختم کرنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
چینی عہدیداروں نے یہ کہتے ہو ئے اس اقدام کا دفاع کیا ہے کہ اس کی وجہ سے شی جنپنگ کے بطور صدر اور ان کی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی اور مسلح افواج کے کمانڈر کے مدت کے حوالے سے ایک جیسا کر دیا گیا ہے کیونکہ ان عہدوں کے لیے مدت کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔
دوسری طرف اس اقدام کے نقادوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے سیاسی جبر میں اضافہ ہوگا اور پارٹی کے ان دھڑوں کے درمیان تنازع کا باعث بنے گا جو اس نظام کے اندر اپنے اپنے امیدواروں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
شی 2013 میں عہدہ صدرات پر فائز ہوئے تھے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ مزید کتنی بار چین کے صدر رہیں گے قبل ازیں اس عہدے کی مدت پانچ سال ہوتی تھی۔ چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ مدت کی شرط کو ختم کرنے سے ریٹائرمنٹ کے شرائط کو نا تو تبدیل کیا گیا ہے اور نا ہی صدر تاحیات اپنے عہدے پر فائز رہیں گے تاہم اس کی مزید وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ شی،کیمونسٹ جماعت کے اندر بدعنوانی کے خلاف ایک سال سے جاری اپنی مہم کا دائرہ کار وسیع کریں گے اور اس مقصد کے لیے ایک قومی نگران کمیشن کی تشکیل کر کے اس میں ریاست کے تمام ملازمین کو شامل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جاندار خارجہ پالیسی اور ملک کی سست ہوئی معیشت کو بھی بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنگز کالج لندن کے پروفیسر کیری براؤن کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور سماجی استحکام کے باعث شی آئین میں ترمیم اور دیگر اقدامات اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں جن کو کبھی بہت ہی متنازع خیال کیا جاتا رہا ہے۔