واشنگٹن کی ایک خاصیت ہے جو ایک طویل عرصے سے برقرار ہے اور وہ ہے ملک کے کسی سانحے کو یاد رکھنا اور اس پر اکٹھے ہونا۔
11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے بعد ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز کیپیٹل بلڈنگ کی سیڑھیوں پر اکٹھے کھڑے ہوئے اور گاڈ بلیس امریکہ(خدا امریکہ کو محٖفوظ رکھے) گایا۔ لیکن متحد ہونے کا یہ جذبہ اب ماند پڑ گیا ہے ۔
اس وقت ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اور خود ری پبلکن پارٹی کے اندر بھی انتشار پایا جاتا ہے۔ وہ پارٹی جس نے ایک وقت میں قومی سانحے کو یاد رکھنے اور اس پر متحد ہونے کی خصوصیت کو برقرار رکھا تھا اب ویسی نہیں ہے جیسی وہ پہلے ہوا کرتی تھی ۔
جمعے کے روز کیپیٹل بلڈنگ پر 6 جنوری کے حملے کے دو سال مکمل ہونے پر بیشتر ڈیموکریٹس نے ایک منٹ کی خاموشی کے ساتھ شرکت کی ۔نئے او ر آنے والے ڈیمو کریٹ راہنماؤں ، نینسی پلوسی اورحکیم جیفریز نے مختصر تقاریر کیں جب کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے کسی نے تقریر نہیں کی ۔
یہ تقریب اس روز بلڈنگ کی حفاظت کرنے والے دارا لحکومت کے پولیس افسروں اور ان خاندانوں اور نفاذ قانون کے ان افسروں پر مرکوز تھی جو بلوے کے دوران ہلاک ہوئے تھے ۔
یہ صورت حال 11 ستمبر کے حالات سے بہت مختلف ہے جب قانون سازوں نے دہشت گرد حملوں کے دوران کیپیٹل بلڈنگ کو خالی کر دیا تھا۔ پھر اسی دن بعد میں وہاں اکٹھے ہوئے اور ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی اور ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس نے کندھے سے کندھا ملا کر گاڈ بلس امریکہ گایا تھا۔
اور اس وقت دنیا ایک مختلف تصویر دیکھ رہی ہے ، ملک کی مقننہ کی شاخ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہے ، مگر اس مرتبہ تشدد کی وجہ سے نہیں بلکہ ریپبلکنز کے درمیان اس بارے میں کشمکش کی وجہ سے کہ ایوان میں اسپیکر کے طور پر کسے قیادت کرنی چاہئے۔
اس وقت ایوان میں ری پبلکن اراکین کی تعداد 222 اور ڈیموکریٹس کی تعداد 213 ہے۔ بظاہر ری پبلکنز پارٹی کو ایوان میں حاصل برتری سے اسپیکر کا انتخاب آسان معلوم ہوتا ہے لیکن امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کے ارکان اسپیکر کے لیے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند نہیں ہیں۔
ارکان کو حاصل اسی اختیار کی وجہ سے اس وقت امریکہ میں اسپیکر کے انتخاب کا عمل طول پکڑ رہا ہے کیوں کہ ری پبلکن پارٹی کے کچھ ارکان اپنی پارٹی کے نمائندے کیون میکارتھی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
رواں سال تین جنوری کو ایوانِ نمائندگان کے اجلاس میں جب اسپیکر کے انتخاب کے لیے رائے شماری کا آغاز ہوا تو ان ارکان نے ری پبلکن امیدوارکیون میکارتھی کو ووٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ انتخاب جیتنے کے لیے مطلوبہ 218 ووٹ حاصل نہیں کرپائے تھے۔
اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹ امیدوار حکیم جیفریز نے اپنی جماعت کے 212 ووٹ حاصل کیے لیکن دونوں ہی امیدوار 218 کا اکثریتی نمبر حاصل نہیں کرسکےہیں جس کی وجہ سے بار بار ووٹنگ کرائی جارہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایوانِ نمائندگان میں اسپیکر کے انتخاب کے موقع پر ایوان کی رائے منقسم ہونے سے ان ادوار کے سیاسی حالات کی عکاسی ہوتی تھی۔ اسپیکر کے الیکشن کی حالیہ صورتِ حال بھی امریکہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کو واضح کرتی ہے۔
اب تک ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے ہونے والے ووٹنگ کے تیرہ ادوار نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
تازہ پیش رفت کے مطابق ایوان کے لیڈر کیون میکارتھی نئی کانگریس میں اسپیکر بننے کی سخت کوشش میں کامیابی کے قریب تر ہو رہے ہیں۔
ووٹنگ کے چوتھے روز بارھویں اور تیرھویں راونڈ میں قدامت پسند ووٹروں میں سے 15 ان کی طرف ہو گئے ۔ لیکن انہیں اب بھی جیتنے کے لیے درکار اکثریتی ووٹ حاصل نہیں ہوئے ہیں ۔ میک کارتھی نے کیپیٹل پہنچنے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم آپ کو حیران کرنے والے ہیں ۔
ووٹو ں میں یہ تبدیلی چیمبر کے فریڈم کاکس کے چئیر مین سمیت کچھ قدامت پسند ووٹروں کی جانب سے میک کارتھی کی طرف جانےسے ہوئی تھی ۔ یہ تبدیلی اس کے بعد ہوئی جب میک کارتھی ان کے بہت سے سخت مطالبے تسلیم کرنے پر تیار ہو گئے۔
ووٹنگ کا یہ سلسلہ مزید کتنا طول پکڑ سکتا ہے؟ اس کا کوئی واضح جواب تاحال سامنے نہیں آسکا ہے۔ البتہ جب تک اسپیکر کا انتخاب نہیں ہوتا تو ایوانِ نمائندگان کی کارروائی آگے نہیں بڑھے گی اور سیاسی مبصرین کے مطابق میکارتھی اسپیکر بننے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تو سیاسی تقسیم کی وجہ سے ایوان پر ان کی گرفت کمزور رہے گی۔
اس ہفتے کے شروع میں بائیڈن نے کہا تھا کہ 100 برسوں میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ ہم آگے نہیں بڑھ سک رہے ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے ۔ آپ کے خیال میں باقی دنیا اسے کیسے دیکھے گی۔
اس رپورٹ کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔