یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے پیر کو وزیر خارجہ احمد عواد بن مبارک کو نیا وزیر اعظم نامزد کیاہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ملک کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی اس تقرری پر برہم ہونگے۔
احمد عواد بن مبارک نے موجودہ وزیر اعظم معین عبدالمالک سعید کی جگہ ایک ایسے وقت میں لی ہے جب دنیائے عرب کے غریب ترین ملک میں حوثی باغیوں کے بحیرہ احمر کے حملوں کے بعد بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے جوابی حملے کیے ہیں۔
یمن کی صدارتی کونسل کی طرف سے جاری کردہ فرمان میں مبارک کی بطور وزیراعظم تقرری کا اعلان کیا گیا اور سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کو صدارتی مشیر کا عہدہ سونپا گیا۔ تاہم اقدام کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
امریکہ میں یمن کے سابق سفیر بن مبارک کو بڑے پیمانے پر حوثی باغیوں کے کٹر مخالف کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جنہوں نے انہیں 2015 میں اغوا کرنے کے بعد، کئی دنوں تک قید میں رکھا تھا۔ اس سے قبل وہ یمن کے صدارتی دفتر کے چیف آف اسٹاف کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
امریکہ میں قائم ناوانتی ریسرچ گروپ میں یمن کے امور کے ماہر، محمد الباشا نے کہا کہ بن مبارک کو "سعودی قیادت والے اتحاد کے معماروں" میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے 2015 میں باغیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے کے ایک سال بعد، بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت کے لیے مداخلت کی تھی۔
محمد الباشانے کہا کہ "حوثیوں کے اس تقرری کو قبول کرنے کا امکان نہیں ہے،"بقول ان کے، بن مبارک اس گروپ کے ایک طویل عرصے سے مخالف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تقرری سے "حوثیوں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان کشیدگی میں شدت آنے کا امکان ہے۔"
حوثی ،ایرانی حمایت یافتہ تنظیموں کے اس مغرب اور اسرائیل مخالف اتحاد "محور مزاحمت" کا حصہ ہیں، جو مہینوں سے بحیرہ احمر کے بحری جہازوں کو ہراساں کر رہا ہے، جس کے جواب میں امریکہ اور اور برطانیہ نے انتقامی حملے شروع کیے ہیں۔
پینٹاگان کے مطابق،حوثیوں نے 19 نومبر سے اب تک تجارتی جہازوں اور نیوی کے جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ حملے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ کی پٹی میں اکتوبر سے جاری اسرائیل حماس جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر کیے گئے ہیں۔
حملوں کے نتیجے میں کچھ جہاز ران کمپنیاں بحیرہ احمر کا راستہ اختیار کرنے کے بجائےجنوبی افریقہ کے گرد چکر لگانے پر مجبور ہوئیں۔ بحیرہ احمر ایک اہم سمندری راستہ ہے اور اوسطأ تقریباً 12 فی صد عالمی سمندری تجارت اس راستے سے ہوتی ہے
اس کے جواب میں امریکی اور برطانوی افواج نے حوثی میزائلوں کے مقامات اور دیگر فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے حملے شروع کیے ہیں۔ امریکہ نے یک طرفہ حملے بھی کیے ہیں۔
حال ہی میں، بن مبارک نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حوثیوں کو ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر نامزد کرے اور بحیرہ احمر کے حملوں کے تناظر میں یمن کی سرکاری افواج کی فوجی مدد میں اضافے کی وکالت کی تھی۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔
فورم