اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یمن میں امن مذاکرات کے غیریقینی صورتحال میں یہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
یمن میں شیعہ حوثی کی ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا نے مرکزی حکومت کو ہٹا کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے اور یہاں صورتحال افراتفری کا شکار ہے جس میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ جنگجو جنوبی علاقوں میں سنی مسلمان قبائل اور القاعدہ کی مقامی شاخوں سے لڑتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے یمن میں اپنے سفارتخانے بند کر دیے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میں یمن سے متعلق تبادلہ خیال کر کے لوٹنے والے بان کی مون کا کہنا ہے کہ " میں یہ واضح طور پر کہہ دوں، یمن ہماری آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہا ہے۔۔۔ ہم صرف ایسا دیکھنے کے لیے کھڑے نہیں رہ سکتے۔"
سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں تیزی سے دوبارہ ایک جائز حکومت بنانا بہت اہم ہے۔ سیاسی اور سلامتی کی صورتحال کے تناظر میں انھوں نے متنبہ کیا کہ صورتحال اس وقت تک مزید بگڑے گی جب تک عالمی برادری یہ سخت اشارہ نہیں دیتی ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کو داو پر نہ لگایا جائے۔
گزشتہ تین سالوں میں یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بینومار یہاں اس تبدیلی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے رہے ہیں۔ بدھ کو انھوں نے فوری خانہ جنگی کے خطرے کا اشارہ دیتے ہوئے سیاسی و اقتصادی ابتر صورتحال کا ذمہ دار تمام فریقین کو ٹھہرایا۔
جمعرات کو انھوں نے دارالحکومت صناء سے وڈیو لنک کے ذریعے کونسل کو بتایا کہ "آج یمن ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ یا تو یہ ملک خانہ جنگی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا یا پھر یہ اپنی راہ پر واپس آنے کا راستہ تلاش کر لے گا۔"
بینومار نے کہا کہ اگر جلد ہی کوئی سیاسی معاہدہ نہیں ہوتا تو ملک اقتصادی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کا منصوبہ ہے کہ وہ یمن میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کے لیے رواں سال 75 کروڑ ڈالر کی اپیل کرے گا۔ یہاں کی 60 فیصد سے زائد آبادی کو امداد کی ضرورت ہے۔