اقوام متحدہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ یمن کے متحارب فریقوں نے مزید دو ماہ کے لیے ملک گیر سطح پر جنگ بندی کی تجدید پر اتفاق کیا ہے۔ اس پیش رفت نے ملک کے لیے امید کی کرن پیدا کی ہے جو آٹھ سال سے خانہ جنگی سے دوچار ہے، اگرچہ دیرپا امن کی راہ میں اہم رکاوٹیں ابھی باقی ہیں۔
یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا اطلاق ابتدائی طور پر 2 اپریل کو ہوا تھا۔عرب دنیا کے سب سے غریب ملک میں گزشتہ چھ برسوں سے جاری تنازع میں یہ پہلی ملک گیر جنگ بندی تھی۔ تاہم، دونوں فریق گاہے گاہے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
یہ اعلان، جو کہ اقوام متحدہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جمعرات کو جنگ بندی کے ابتدائی معاہدے کی میعاد ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی سامنے آیا۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہانس گرنڈ برگ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’جنگ بندی، لڑائی میں ایک اہم تبدیلی کی غماز ہوتی ہے اور یہ فریقین کی جانب سے ذمہ دارانہ اور جرات مندانہ فیصلے کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ نئی جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے متحارب فریقوں کے درمیان بات چیت میں ثالثی کریں گے تاکہ تنازع کے خاتمے کے لیے سیاسی تصفیہ تک پہنچا جا سکے۔
صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کی تجدید کا خیر مقدم کیا اور زور دیا کہ یمن میں جنگ کا خاتمہ ان کی انتظامیہ کی ترجیح رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "میں تمام فریقوں سے ایک جامع امن عمل کی طرف تیزی سے آگے بڑھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہماری سفارت کاری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کوئی مستقل حل نہیں نکال لیاجاتا،‘‘
یمن میں لڑائی 2014 میں اس وقت شروع ہوئی، جب حوثی اپنے شمالی علاقے سے نیچے اتر آئے اور انہوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیاجس کے بعد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سعودی قیادت میں ایک اتحاد 2015 کے اوائل میں یمنی حکومت کی بحالی کی کوشش کے لیے جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔