پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات میں 17 سالہ لڑکی کو اس بنا پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اپنے والد کی مرضی کے مطابق شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ تحصیل سرائے عالمگیر کے بلانی پولیس اسٹیشن کی حدود میں واقع گاؤں جگو میں گزشتہ ہفتے پیش آیا۔
بولانی پولیس اسٹیشن کے انچارج ارسلان اشرف نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقتولہ ثنا ایمان مقامی کالج میں سال دوم کے طالبہ تھی۔
پولیس کے مطابق مقتولہ کا والد محمد فاروق اس کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتا تھا لیکن ثنا نے یہ کہتے ہوئے شادی سے انکار کر دیا تھا کہ وہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے۔ جس پر اس کے والد محمد فاروق نے مشتعل ہو کر ثنا کو گزشتہ جمعے گولی مار کر قتل کردیا۔
پولیس نے مقتولہ کے ماموں کی درخواست پر مقدمہ درج کر کے اس معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم تاحال مفرور ہے جسے گرفتار کرنے کے لیے پولیس اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
ارسلان نے بتایا کہ لڑکی کو بظاہر والد کی مرضی کے مطابق شادی سے انکار کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ پولیس اس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کر رہی ہے۔
حقوق نسواں کمیشن پنجاب کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے بدھ کووائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "یہ خاصی تشویش ناک بات ہے۔ جب ایک لڑکی اپنے آئینی اور قانونی حق کو استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب ہمیں ایسے واقعات کی بہت زیادہ رپورٹس مل رہی ہیں۔ کیونکہ میڈیا ان معاملات کو اٹھا رہا ہے اور سول سوسائٹی بھی ان کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔"
حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور بعض نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو اپنے ہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور سندھ ہائی کورٹ کی سابق جج ماجدہ رضوی کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی وجہ بننے والے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ایک چیلنج ہے۔
ان کے بقول، "ایک تو لوگوں کی سوچ ایسی ہے کہ مرد اسے انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ لڑکی نے (شادی سے ) انکار کر دیا یا بیٹی ان کی مرضی کے خلاف جارہی ہے۔۔۔ قوانین تو موجود ہیں تاہم ان پر عمل درآمد موثر طور پر نظر نہیں آ رہا ہے۔"
فوزیہ وقار نے کا کہنا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں تاہم ان قوانین پر موثر عمل درآمد سے ہی ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
"ایسے مثالی مقدمات چاہئیں جن میں پولیس، استغاثہ اور عدالتیں مل کر کام کر کے سخت سزائیں دیں تاکہ وہ ایک مثال بن جائے۔ جہاں سماجی آگہی ضروری ہے وہیں کڑی سزائیں دے کر ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ "
ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت نے نہ صرف قوانین میں ترمیم کی ہے بلکہ انتظامی سطح پر بھی کئی اقدمات اٹھائے ہیں تاکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد سزا سے نہ بچ سکیں۔
پاکستان میں قدامت پسند روایات کے برعکس زندگی بسر کرنے کی کوشش اور خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر ہر سال سیکڑوں کی تعداد میں خواتین کو غیرت کے نام پر اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں تواتر کے ساتھ منظر عام پر آتے رہے ہیں جن کا نشانہ نا صرف خواتین بنیں بلکہ بعض واقعات میں مرد بھی ان کا نشانہ بنے۔