رسائی کے لنکس

سعودی نوجوان کرونا وائرس کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں؟


ایثار فہد، فائل فوٹو
ایثار فہد، فائل فوٹو

26 سالہ ایثار فہد کا کہنا ہے کہ جب ان کی ماں اور بہن کو کرونا وائرس ہوا تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔ اس کے بعد انہیں بھی کرونا کی وجہ سے شدید بخار اور جسم میں درد محسوس ہوا۔

نوجوان قانونی ماہر خاتون کا کہنا ہے کہ پہلے تو ہم اس وبا کو مذاق میں لے رہے تھے مگر پھر ایک کے بعد ایک کو کرونا لاحق ہونے لگ گیا۔

اپریل میں سعودی عرب نے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ صرف ضروری کاروبار ہی کھلے ہوئے تھے اور شہریوں کا اپنے محلوں سے نکلنا منع تھا۔

ایثار فہد کے مطابق جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تو بہت بے چینی محسوس ہوئی۔ لوگ اپنے گھروں میں محصور تھے۔ ’’ہم تین یا چار مہینوں کے بعد اسے برداشت نہ کر سکے۔ یہ بہت زیادہ تھا۔‘‘

جون میں کرفیو ہٹا تو شہری گھروں سے سہ پہر تین سے چھ بجے تک گھروں سے نکلنے لگے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے کرونا وائرس ریسورس سینٹر کے مطابق سعودی عرب میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔

جون کے بعد آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن میں نرمی آنے لگ گئی۔

ریاض کی ایک سپرمارکیٹ کا منظر۔ لوگوں نے وائرس سے بچنے کے لیے ماسک پہن رکھے ہیں،
ریاض کی ایک سپرمارکیٹ کا منظر۔ لوگوں نے وائرس سے بچنے کے لیے ماسک پہن رکھے ہیں،

لیکن نوجوان سعودیوں کے لیے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ان کی زندگیاں اور ان کے کیرئیر بدل چکے ہیں۔ بہت سے نوجوان کم اجرت والی ملازمتوں جیسے اوبر ڈرائیو کرنا یا کورئیر کی جابز کر رہے ہیں۔

ایثار کا کہنا تھا کہ ’’ہر کسی نے کوشش کی کہ وہ سائڈ میں بھی ایک جاب کر لے۔ ہر کوئی نئی جاب کی تلاش میں لگ گیا۔ لوگوں نے اپنے کاروبار بند کرنا شروع کر دیے۔ خصوصاً نئے کاروبار تو بند ہو گئے۔‘‘

23 سالہ الجہرا الحمدان بھی، جو قانون دان کے طور پر کام کرتی ہیں، عالمی وبا سے متاثر ہوئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’’مقامی نجی لا آفس کے طور پر ہمارے وزارت انصاف اور دیگر حکومتی اداروں سے تعلقات تھے اور ہم ان کا کام کرتے تھے۔‘‘ ان کے مطابق عالمی وبا کے بعد مہینوں کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے اپنے بہت سے کلائنٹ کھو دیے ہیں۔

جہاں سعودی حکومت کی جانب سے شہریوں کے لیے امداد میں کمی آئی وہیں جولائی میں حکومت کی جانب سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کر دیا گیا ہے۔

الحمدان کے مطابق یہ سب کے لیے بہت حیران کن تھا لیکن جس طرح بجٹ کا خسارہ جاری تھا اس کے مطابق ٹھیک تھا۔ ان کے مطابق ٹیکس میں اضافہ حکومت کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے تھا۔

سعودی عرب کی شماریات کی اتھارٹی کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 15.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کہ معیشت میں 7 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔

XS
SM
MD
LG