رسائی کے لنکس

کارٹون مسترد ہونے سے پالیسی کا اندازہ ہوتا ہے، کارٹونسٹ ظہور


'فرنٹیئر پوسٹ' سے کریئر شروع کرنے والے ظہور پاکستان کے اہم ترین کارٹونسٹس میں سے ایک ہیں۔ وہ 'ڈیلی ٹائمز' اور 'ایکسپریس ٹربیون' کے بعد اب 'ڈان' کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایڈیٹرز اور کارٹونسٹ، سب ان کے عمدہ آئیڈیاز اور خاکوں کی تعریف کرتے ہیں۔

ظہور نے 'وائس آف امریکا' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ روزانہ کارٹون بناتے ہیں۔ اس مقصد سے وہ قومی اخبارات پڑھ کر کارٹون کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ان کے تمام آئیڈیاز قبول نہیں کیے جاتے۔ آئیڈیاز مسترد ہوتے رہتے ہیں۔ پہلے ایسا کم ہوتا تھا۔ لیکن اب معمول بن چکا ہے۔

ظہور نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پہلے پاکستان میں کارٹونز کے حوالے سے جتنی آزادی تھی، اب نہیں رہی۔ پہلے مسلم اخبار تھا، 'فرنٹیئر پوسٹ' تھا۔ ان کے دور میں زیادہ آزادی تھی۔

اب آزادی کیوں نہیں ہے؟ کس کا دباؤ ہے؟ ظہور نے کہا کہ ایڈیٹر پر کسی کا دباؤ ہوتا ہے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہمیں ایڈیٹوریل پالیسی کے حساب سے چلنا پڑتا ہے۔ اس کی بھی واضح ہدایات نہیں ملتیں۔ جب کارٹون مسترد ہوجاتا ہے تو اندازہ لگاتے ہیں کہ اس جانب ہاتھ ہولا رکھنا اور اس آئیڈیا پر کام کرنے سے بچنا ہے۔

پاکستان میں کون سے کارٹونسٹ سے مقابلہ ہے؟ ظہور نے کہا کہ ''ہم اب عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں کہ کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ کام مزدوری بن چکا ہے۔ اختر شاہ ایک بہت اچھا کارٹونسٹ تھا۔ وہ پہلے 'دی مسلم' میں تھا، پھر 'دی نیوز' میں آگیا تھا۔ لیکن، اخبار نے اس کے کارٹون چھاپنا بند کردیے۔ وہ دو سال ویسے ہی کام کرتا رہا۔ پھر اس نے کارٹون بنانا ہی بند کردیے۔ اس وقت صابر نذر سب سے اچھا کارٹونسٹ ہے''۔

پاکستان میں کارٹونسٹ کم کیوں ہیں؟ نئے آرٹسٹ اس جانب کیوں نہیں آرہے؟ ظہور نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ''یہ پیشہ کافی عجیب و غریب سا ہے۔ آرٹسٹ اس کے بجائے پینٹنگز بنانے کو زیادہ بہتر کام سمجھتے ہیں۔ کارٹونسٹ بننے میں پریشانیاں کافی ہیں''۔

پاکستان اور امریکا یورپ کے کارٹونز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ظہور نے بتایا کہ وہ غیر ملکی اخبارات کے کارٹونز دیکھتے رہتے ہیں۔

ان کے الفاظ میں، ''ان میں اور ہمارے کارٹونز میں فرق یہ ہے کہ وہ کیپشن پر چلتے ہیں۔ الفاظ کے بغیر وہ کارٹون پیش کیے جائیں تو بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں۔ ہمیں الفاظ کے بغیر اپنی بات کہنا پڑتی ہے''۔

XS
SM
MD
LG