واشنگٹن —
زہرا شاہد سے میری پہلی ملاقات ایک ہاتھا پائی کے دوران ہوئی تھی۔ یہ ہاتھا پائی کراچی کے سٹی اسکول کے درخشاں کیمپس میں ہو رہی تھی جہاں میں نے انٹر کے بعد ’برٹش یونیورسٹیز انڈر گریجویٹ پروگرام‘ میں داخلہ لیا تھا۔
اس کورس کو شروع ہوئے شاید دوسرا یا تیسرا دن تھا اور تمام اساتذہ کی طالب علموں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ کیمپس میں سمینٹ کے ایک بینچ پر ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کلاس شروع ہونے سے پہلے خوش گپیوں کا ایک سلسہ جاری تھا۔
اچانک ایک لڑکا آیا اور اس نے سب کو سلام کیا اور پھر اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر باقیوں کو پیش کرنے لگا۔ جب اس نے مجھے سگریٹ پیش کی تو میں نے نہیں لی، اس پر اس نے کہا کہ لگتا ہے ابھی تک سگریٹ شروع نہیں کی ہے۔ جب شروع کرو تو بتا دینا۔
اس کی اس بات پر اچانک میرا دماغ خراب ہو گیا، اٹھارہ سال کا لڑکا یہ سمجھتا ہے کہ اس نےاپنی زندگی میں جتنا بڑا ہونا ہوتا ہے وہ ہو چکا ہے۔
اُس سے یہ کہنا کہ لگتا ہے تم پوری طرح بڑے نہیں ہوئے ہو، یہ بالکل بیل کے سامنے کھڑے ہو کر آ بیل مجھے مار والی بات تھی۔ بس میں نے اس لڑکے کی کلائی پکڑ لی اور کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو کے تم نے دو کش لگا لیے ہیں تو تم مجھ سے بڑے ہو؟ اس نے پہلے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی اور پھر بولا دیکھو عبدالعزیز میرا ہاتھ چھوڑ دو۔
مگر میرا اس کا ہاتھ چھوڑنے کا موڈ نہیں تھا، میں نے اس سے کہا اگر سگریٹ نہیں پی ہوتی تو شاید یہ ہاتھ تم خود ہی چھڑا لیتے۔ دیکھو تمہیں کیسے فرمائش کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ تم میں دم نہیں ہے۔ وہیں سے ہاتھا پائی کی شروعات ہوئی اور دیکھا دیکھی لوگ اسے چھڑانے پہنچ گئے۔
ہمارے چوکیدار ایک بڑے میاں ہوا کرتے تھے جو اکثر گاڑیوں کے لیے گیٹ کھولا کرتے تھے۔ جب انھوں نے دیکھا کے ہاتھا پائی ہو رہی ہے تو وہ بھی آ گئے اور بولے میاں یہ کیا حماقت ہے کیا دماغ خراب ہو چکے ہیں تم لوگوں کے؟ اور پھر لڑائی ختم کروانے میں مصروف ہو گئے۔
اسی کشمکش کے درمیان میں نے دیکھا کےدروازے میں سے ایک خاتون نمودار ہوئیں جنہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔
یہ قد میں ان تمام لوگوں سے لمبی تھیں جو آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ ان کے آنے سے وہ جگھڑا ایسا ختم ہوا جیسے کے کبھی شروع ہی نہ ہوا ہو اور وہ تمام لوگ جو تھوڑی دیر پہلے گتھم گتھا تھے ایسے ’اٹینشن‘ کھڑے ہو گئے جیسے کسی فوج کے جنرل کی موجودگی میں سپاہی ’اٹینشن‘ ہو جاتے ہیں۔
پھر یہ چلتی ہوئی آیں اور مجھے مخاطب کر کے بہت ہی نرم لہجے میں بولیں- اس سب کی کوئی وجہ بھی تھی یا بس ایسے ہی ؟
اس پر میں نے جواب دیا، میڈم یہ کہہ رہا تھا کے جب تم سگریٹ پینا شروع کرو تو میرے پاس آ جانا۔ یہ جواب سن کر پورے مجمے نے ہنسنا شروع کر دیا اور مجھے اندازہ ہوا کے یہ لڑائی کتنی احمقانہ بات پر شروع ہوئی تھی۔
مجھے شرمندہ دیکھ کر وہ بولیں چلو کوئی بات نہیں۔ سوشیالوجی کلاس شروع ہونے والی ہے سب لوگ کلاس میں آ جائیں۔ جیسے جیسے ہم کلاس کی طرف بڑھے مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ ایک خاتون جن کا رعب اور دبدبا اتنا ہو کہ ان کےقدم رکھنے سے وہ ہاتھا پائی ختم ہو جائے جو سات مرد اپنے زور بازو سے نہیں رکوا سکے ،وہ اپنی گفتگو میں اتنی شائستہ کیسے ہو سکتیں ہیں؟
مگر جیسے جیسے میںٕ نے ان کی سوشیالوجی کی کلاس لی مجھے خود سمجھ میں آنے لگا کہ کسی انسان یا قوم پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے اندر اپنا خوف بٹھایا جائے۔
اس کے لیے لوگوں کا بھروسہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تب ملتا ہے جب آپ ان کو صرف دو باتوں پر قائل کر لیں ایک کہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوٕں اور دوسرے میں تمہارے مفاد میں کام کر رہا ہوں۔ جس دن آپ کسی بھی انسان کو ان دو چیزوں پر قائل کر لیتے ہیں تو وہ اپنی زندگی آپ کے حوالے کر دیتا ہے۔
اس کورس کو شروع ہوئے شاید دوسرا یا تیسرا دن تھا اور تمام اساتذہ کی طالب علموں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ کیمپس میں سمینٹ کے ایک بینچ پر ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور کلاس شروع ہونے سے پہلے خوش گپیوں کا ایک سلسہ جاری تھا۔
اچانک ایک لڑکا آیا اور اس نے سب کو سلام کیا اور پھر اپنی جیب سے سگریٹ نکال کر باقیوں کو پیش کرنے لگا۔ جب اس نے مجھے سگریٹ پیش کی تو میں نے نہیں لی، اس پر اس نے کہا کہ لگتا ہے ابھی تک سگریٹ شروع نہیں کی ہے۔ جب شروع کرو تو بتا دینا۔
اس کی اس بات پر اچانک میرا دماغ خراب ہو گیا، اٹھارہ سال کا لڑکا یہ سمجھتا ہے کہ اس نےاپنی زندگی میں جتنا بڑا ہونا ہوتا ہے وہ ہو چکا ہے۔
اُس سے یہ کہنا کہ لگتا ہے تم پوری طرح بڑے نہیں ہوئے ہو، یہ بالکل بیل کے سامنے کھڑے ہو کر آ بیل مجھے مار والی بات تھی۔ بس میں نے اس لڑکے کی کلائی پکڑ لی اور کہا کہ تم کیا سمجھتے ہو کے تم نے دو کش لگا لیے ہیں تو تم مجھ سے بڑے ہو؟ اس نے پہلے اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کی اور پھر بولا دیکھو عبدالعزیز میرا ہاتھ چھوڑ دو۔
مگر میرا اس کا ہاتھ چھوڑنے کا موڈ نہیں تھا، میں نے اس سے کہا اگر سگریٹ نہیں پی ہوتی تو شاید یہ ہاتھ تم خود ہی چھڑا لیتے۔ دیکھو تمہیں کیسے فرمائش کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ تم میں دم نہیں ہے۔ وہیں سے ہاتھا پائی کی شروعات ہوئی اور دیکھا دیکھی لوگ اسے چھڑانے پہنچ گئے۔
ہمارے چوکیدار ایک بڑے میاں ہوا کرتے تھے جو اکثر گاڑیوں کے لیے گیٹ کھولا کرتے تھے۔ جب انھوں نے دیکھا کے ہاتھا پائی ہو رہی ہے تو وہ بھی آ گئے اور بولے میاں یہ کیا حماقت ہے کیا دماغ خراب ہو چکے ہیں تم لوگوں کے؟ اور پھر لڑائی ختم کروانے میں مصروف ہو گئے۔
اسی کشمکش کے درمیان میں نے دیکھا کےدروازے میں سے ایک خاتون نمودار ہوئیں جنہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔
یہ قد میں ان تمام لوگوں سے لمبی تھیں جو آپس میں گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ ان کے آنے سے وہ جگھڑا ایسا ختم ہوا جیسے کے کبھی شروع ہی نہ ہوا ہو اور وہ تمام لوگ جو تھوڑی دیر پہلے گتھم گتھا تھے ایسے ’اٹینشن‘ کھڑے ہو گئے جیسے کسی فوج کے جنرل کی موجودگی میں سپاہی ’اٹینشن‘ ہو جاتے ہیں۔
پھر یہ چلتی ہوئی آیں اور مجھے مخاطب کر کے بہت ہی نرم لہجے میں بولیں- اس سب کی کوئی وجہ بھی تھی یا بس ایسے ہی ؟
اس پر میں نے جواب دیا، میڈم یہ کہہ رہا تھا کے جب تم سگریٹ پینا شروع کرو تو میرے پاس آ جانا۔ یہ جواب سن کر پورے مجمے نے ہنسنا شروع کر دیا اور مجھے اندازہ ہوا کے یہ لڑائی کتنی احمقانہ بات پر شروع ہوئی تھی۔
مجھے شرمندہ دیکھ کر وہ بولیں چلو کوئی بات نہیں۔ سوشیالوجی کلاس شروع ہونے والی ہے سب لوگ کلاس میں آ جائیں۔ جیسے جیسے ہم کلاس کی طرف بڑھے مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ ایک خاتون جن کا رعب اور دبدبا اتنا ہو کہ ان کےقدم رکھنے سے وہ ہاتھا پائی ختم ہو جائے جو سات مرد اپنے زور بازو سے نہیں رکوا سکے ،وہ اپنی گفتگو میں اتنی شائستہ کیسے ہو سکتیں ہیں؟
مگر جیسے جیسے میںٕ نے ان کی سوشیالوجی کی کلاس لی مجھے خود سمجھ میں آنے لگا کہ کسی انسان یا قوم پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کے اندر اپنا خوف بٹھایا جائے۔
اس کے لیے لوگوں کا بھروسہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تب ملتا ہے جب آپ ان کو صرف دو باتوں پر قائل کر لیں ایک کہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوٕں اور دوسرے میں تمہارے مفاد میں کام کر رہا ہوں۔ جس دن آپ کسی بھی انسان کو ان دو چیزوں پر قائل کر لیتے ہیں تو وہ اپنی زندگی آپ کے حوالے کر دیتا ہے۔