ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ان کا ملک تناؤ میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔
وزیر اعظم شِنزو آبے کے ساتھ مذاکرات کے لیے بدھ کے روز دورہ جاپان کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے ظریف نے کہا کہ ایران سمجھتا ہے کہ ’’بین الاقوامی قانون کے تحت سارے ملکوں کو اپنے حقوق استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔
ایران اور امریکہ کے مابین ثالثی کی کوشش کی غرض سے آبے نے اس سال کے اوائل میں ایران کا دورہ کیا تھا۔
اس ہفتے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’اس بات کا اچھا امکان ہے‘‘ کہ وہ ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات کریں، تاکہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ایک نئے سمجھوتے پر بات کی جا سکے۔ ٹرمپ گذشتہ سال 2015ء کے بین الاقوامی معاہدے سے الگ ہوگئے تھے۔
تاہم، روحانی نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو انھیں پہلے قدم کے طور پر اپنے تمام ’’غیر قانونی، ناانصافی پر مبنی اور نامناسب‘‘ تعزیرات اٹھا لینی چاہئیں جو امریکہ نے ایران پر عائد کر رکھی ہیں۔
ممکنہ مذاکرات کے حوالے سے، ٹرمپ نے اپنی شرائط تجویز کی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ فوجی پیش قدمی اور حملوں کے ذریعے ایران کو بیرون ملک مزید کشیدگی نہیں پیدا کرنی چاہیے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نئے معاہدے میں ایران کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے اور بیلسٹک میزائل تجربات سے روکا جائے گا؛ اور یہ کہ 2015ء کے سمجھوتے کی جگہ نئے معاہدے میں یہ بندش 10 برس کی میعاد سے زیادہ عرصے تک لاگو ہوگی۔
امریکی صدر نے یہ بیان فرانس میں ’جی 7 سربراہ اجلاس‘ کے دوران دیا ہے۔
فرانسیسی صدر امانوئیل مکخواں نے ظریف کو اتوار کے روز مذاکرات کے لیے مدعو کیا ہے، جو ملاقات سربراہ اجلاس کے مقام کے قریب ہوگی۔ انھوں نے اپنے طور پر امریکہ اور ایران کے مابین بات چیت کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
مکخواں نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ اس ’’محتاط نتیجے‘‘ پر پہنچے ہیں کہ اگر ٹرمپ اور روحانی کی ملاقات ہو جاتی ہے تو امریکہ اور ایران کسی سمجھوتے پر پہنچ سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر اس قسم کے مذاکرات ہوتے ہیں، تو 2015ء کے معاہدے پر دستخط کرنے والی عالمی طاقتوں برطانیہ، چین، جرمنی، روس اور یورپی یونین کے ساتھ ساتھ فرانس اپنا ’’کردار ادا کرے گا‘‘۔
منگل کے روز ’آر ایف اِی/ایف ایل‘ (ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی) کو کئیف میں انٹرویو دیتے ہوئے، امریکی قومی سلامتی کے مشیر، جان بولٹن نے کہا ہے کہ تمام شقوں پر مشتمل سمجھوتے کے بغیر ایران تعزیرات میں نرمی کی توقع نہیں کر سکتا۔
بولٹن نے کہا کہ ’’یہ امید رکھنا کہ محض اُن باتوں سے رکنے کے عوض جو اسے ہرگز نہیں کرنی چاہیے تھیں، ایران کو معاشی طور پر کسی قسم کی نرمی میسر آئے گی۔ یہ ایک خام خیالی ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر کوئی مربوط معاہدہ طے ہوتا ہے، تو بالکل ایسا ہو سکتا ہے کہ تعزیرات اٹھا لی جائیں۔ جب ایران کی حکومت اس بات پر رضامند ہوجائے تو پھر ملاقات ہو سکتی ہے‘‘۔