یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کی پیر کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ایک بار پھر بھارت کا کردار موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین چاہتا ہے کہ بھارت اس معاملے میں ثالثی کرے اور روس کو جنگ بندی پر قائل کرے۔
پیر کو بھارتی وزیرِ اعظم کے ساتھ اپنی گفتگو میں یوکرین کے صدر نے وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ جنگ بندی کے مجوزہ فارمولے پر تبادلۂ خیال بھی کیا۔
ایک ٹوئٹ میں زیلنسکی کہا کہ میں نے وزیرِ اعظم مودی سے فون پر گفتگو کی اور گروپ۔ 20 کی صدارت کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
اُن کے بقول "میں نے اسی پلیٹ فارم پر امن فارمولے کا اعلان کیا تھا اور مجھے امید ہے کہ بھارت اس کے نفاذ کی کوشش کرے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارت گروپ ۔20 کا صدر ہے۔'
بھارت کی جانب سے کہا گیا کہ وزیر ِاعظم مودی نے فوراً جنگ بند کرنے کی بھارت کی اپیل اور کسی بھی امن عمل کی حمایت کا اعادہ کیا۔
روس کی جانب سے رواں سال 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد سے مودی اور زیلنسکی متعدد بار تبادلۂ خیال کر چکے ہیں۔
البتہ رواں برس یکم دسمبر کو بھارت کے پاس گروپ۔20 کی صدارت آنے اور جنگ بندی کے لیے زیلنسکی کی جانب سے 10 نکاتی فارمولہ پیش کیے جانے کے بعد ان کے درمیان یہ پہلی گفتگو تھی۔
نریندر مودی اس مسئلے پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی متعدد بار گفتگو کر چکے ہیں۔
انہوں نے 16 ستمبر کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پوٹن سے ملاقات کے دوران جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے سفارت کاری اور مذاکرات سے تنازعے کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ دور جنگ کا نہیں ہے۔
زیلنسکی کی تازہ اپیل کے بعد ایک بار پھر بھارت کی جانب سے ممکنہ ثالثی اور اس کی کامیابی کے امکانات پر گفتگو ہونے لگی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ گفتگو ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مغرب کی جانب سے روس کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
زیلنسکی نے گزشتہ دنوں واشنگٹن کا دورہ کرکے امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی اور اپنے دس نکاتی امن فارمولے پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات اہم ہے کہ دونوں ملک جنگ بندی اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن مذاکرات کے واضح نکات سامنے نہیں آئے ہیں۔
پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن اس کے مغربی حلیفوں نے اسے روک رکھا ہے۔ جب کہ یوکرین کا کہنا ہے کہ پوٹن اس کے علاقوں پر قبضے کے اپنے ارادے کو پوشیدہ رکھنے کے لیے دنیا کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
'جنگ بندی فارمولے میں روس کے لیے کوئی یقین دہانی نہیں ہے'
مبصرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ زیلنسکی کی مودی سے اپیل ان کے اس بیان کی بنیاد پر ہو کہ یہ دور کا جنگ کا نہیں ہے، لہٰذا بھارت ثالثی کر سکتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ زیلنسکی نے جو 10 نکاتی امن فارمولہ پیش کیا ہے اس میں روس کے خدشات کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں ہے۔ صرف اس نکتے پر گفتگو ہو سکتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدہ ہو جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی امید کم ہے کہ روس اس فارمولے کو تسلیم کرے گا۔ وہ اس وقت تک جنگ بند نہیں کرے گا جب تک کہ کوئی ٹھوس ثالثی نہ ہو۔ ان کے خیال میں اگر بھارت ثالثی کرتا ہے اور وہ کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی کامیاب ثالثی کے امکانات معدوم ہیں۔ اس کی ایک وجہ امریکہ اور مغرب کی جانب سے یوکرین کی مدد بھی ہے۔
خیال رہے کہ زیلنسکی کے واشنگٹن دورے کے موقع پر بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کی مزید امداد اور پیٹریاٹ میزائل نظام سپلائی کرنے کا اعلان کیا۔ جب کہ مغربی ملکوں ںے روس کے خلاف مزید اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
اسی درمیان صدر پوٹن نے ایک بیان میں کہا کہ جوہری جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہیں کریں گے۔
دریں اثنا انہوں نے یورپی یونین کے ان ملکوں کو خام تیل فروخت نہ کرنے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جو مغربی حلیفوں کی جانب سے روسی تیل کی قیمت مقرر کیے جانے کی پابندی کریں گے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ دراصل روس کو خدشہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اس کو دبانے، الگ تھلگ کرنے اور وسطی ایشیائی خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
'یوکرین جنگ نے بھارت کے لیے مشکلات پیدا کیں'
تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ بھارت کے دیرینہ دوست روس کی جانب سے یوکرین پر حملے نے بھارت کے سامنے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ وہ کھل کر نہ تو روس کی فوجی کارروائی کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت کر سکتا ہے۔ اس نے تمام عالمی فورمز پر غیر جانب دارانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ یہ اس کی کمزوری بھی ہے اور یہی اس کی مضبوطی بھی ہے۔
ان کے مطابق اگر چہ پوٹن نے مودی کی یہ بات خاموشی سے سن لی کہ یہ دور جنگ کا نہیں ہے لیکن انہوں نے اس کو عملی طور پر کوئی اہمیت نہیں دی۔ ادھر روس اور بھارت کے درمیان وہ سالانہ سربراہ کانفرنس منعقد نہیں ہو سکی ہے جو سال کے اختتام پر ہوتی رہی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کسی کامیاب ثالثی کے امکانات محدود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فریقین کی جانب سے متبادل تجاویز پیش نہیں کی جا رہی ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر زیلنسکی کے فارمولے میں روس کے خدشات کو بھی دور کرنے کی یقین دہانی ہو اور بھارت سعودی عرب، ایران اور جاپان وغیرہ کو ملا کر ایک گروپ بنائے اور وہ گروپ ثالثی کرے تو وہ کوشش نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت روس اور یوکرین کے ساتھ تبادلۂ خیال کرکے امن فارمولے میں روس کے خدشات کو دور کرنے کے نکات شامل کر وا سکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق زیلنسکی کا دس نکاتی فارمولہ بظاہر یکطرفہ لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ روس اس کو تسلیم نہیں کرے گا۔ تاہم اگر اس کو مزید جامع بنایا جائے تو ممکن ہے کہ وہ روس کے لیے قابل قبول ہو۔
ان کے مطابق بھارت بھی ثالثی کرکے عالمی فورمز پر اپنے کردار کو مزید مؤثر بنانا چاہتا ہے لیکن سرِدست روس یوکرین معاملے میں اس کی کامیاب ثالثی کے امکانات کم ہیں۔