زمبابوے نے 2500 سے زیادہ جنگلی جانوروں کو خشک سالی سے بچانےکے لئے ایک جنوبی پارک سے ملک کے شمال میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے جب کہ جنگلی حیات کے لئے اب غیر قانونی شکار کی بجائے موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہیں ۔
تقریباً 400 ہاتھی، 2000 امپالاس، 70 زرافے، 50 بھینسیں، 50 وائلڈ بیسٹ، 50 زیبرے، 50 ایلینڈ، 10 شیر اور 10 جنگلی کتوں کا ایک گروپ ان جانوروں میں شامل ہے جنہیں زمبابوے میں جنگلی حیات کے لئے مختص محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے ۔
اس کارروائی کے تحت جسے پراجیکٹ ریوائلڈ زیمبیزی کہا گیا ہے ، جانوروں کو دریائے زیمبیزی کی وادی میں منتقل کیا جارہا ہے تاکہ وہاں جنگلی حیات کی آبادیوں کو از سر نو بڑھایا جا سکے ۔
ساٹھ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ زمبابوے نے جنگلی حیات کی اندرون ملک اتنے بڑے پیمانے پر منتقلی کی ہے ۔1958 اور 1964 کے درمیان جب یہ ملک سفید فام اقلیت کی حکمرانی میں رہوڈیشیا کہلاتا تھا، 5000 سے زیادہ جانوروں کو آپریشن نواہ نامی ایک کارروائی کے تحت منتقل کیا گیا تھا۔ وہ کارروائی جنگلی حیات کو دریائے زیمبیزی پر بڑے پیمانے کے ایک ہائڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں بلند ہوتے ہوئے پانی سے بچانے کے لئے کی گئی تھی ۔
لیکن زمبابوے نیشنل پارکس اور وائلڈ لائف کی انتظامی اتھارٹی کے ترجمان تناشے فراوو نے بتایا کہ اس مرتبہ پانی کا فقدان جنگلی حیات کو ان کے ٹھکانوں سے منتقل کرنے کی وجہ بنا ہے جو طویل خشک سالی کے باعث خشک ہوچکا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پارکوں کے ادارے نے جانوروں کو کسی سانحے سے بچانے کے لئے منتقل کرنے کے اجازت نامے جاری کئے ہیں۔
فراوو نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا،" ہم دباؤکم کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہیں۔ ہم نے برسوں جنگلی حیات کو غیر قانونی شکار سے بچانے کے لئے جدو جہد کی ہے اور اب جب ہم وہ جنگ جیت رہے تھے ،تو آب وہوا کی تبدیلی ہماری جنگلی حیات کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ہمارے بہت سے پارکس میں جانوروں کی آبادیاں بہت بڑھ گئی ہیں اور وہاں پانی اور خوراک کم پڑ گئی ہے ۔جانور آخر کار خود اپنے مسکنوں کو تباہ کر دیتے ہیں ، وہ خود اپنے لئے خطرہ بن جاتے ہیں اور وہ خوراک کی تلاش میں قریب واقع انسانوں کی بستیوں میں گھس جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک مسلسل تنازعہ جنم لیتا ہے۔
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ جنگلی حیات کی تعداد کم کرنے کے لئے انہیں ہلاک کر دیا جائے ، لیکن جانوروں کے تحفظ کے علمبردار گروپس احتجاج کرتے ہیں کہ ایسی ہلاکتیں ظالمانہ اقدام ہیں ۔ فراوو نے بتایا کہ زمبانوے نے آخری بار 1987 میں جانوروں کی آباد یوں کو کم کرنے کے لئے انہیں ہلاک کیا تھا ۔
آب و ہوا کی تبدیلی کےاثرات صرف زمبابوے کی جنگلی حیات پر ہی نہیں پڑے ہیں ۔ پورے افریقہ کے نیشنل پارکس کو جو شیروں ہاتھیوں اور بھینسوں جیسی جنگلی حیات کی لا تعداد انواع کے گھر ہیں ، اوسط سے کم بارشوں اور انفرا اسٹرکچر کے نئے پراجیکٹس سے خطرہ لاحق ہے ۔ حکام اور ماہرین کہتے ہیں کہ خشک سالی نے گینڈوں ، ذرافوں اور ہرنوں جیسے جانوروں کے لئے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے دستیاب خوراک کی مقدار کم ہو جاتی ہے ۔
مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کے کروگر نیشنل پارک میں کئے جانے والے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا کہ شدید موسمیاتی واقعات پودوں اور جانوروں کونقصان پہنچاتے ہیں جو طویل خشک سالی کے ادوار اور گرم تر درجہ حرارت کی وجہ سے شدید موسمی حالات اور پانی کے فقدان سے مطابقت پیدا نہیں کر سکتے ۔
بڑے پیمانے کی اس تحریک کو افریقہ میں ایک غیر منافع بخش تنظیم گریٹ پلینز فاونڈیشن کی معاونت حاصل ہے جو اس کی ویب سائٹ کے مطابق "جدید تحفظ کے اقدامات کے ذریعے افریقہ میں قدرتی رہائش گاہوں کے تحفظ اور توسیع کے لیے کام کرتی ہے۔
" ویب سائٹ کے مطابق یہ تنظیم زمبابوے نیشنل پارکس اینڈ وائلڈ لائف مینجمنٹ اتھارٹی، مقامی ماہرین، یونیورسٹی آف واشنگٹن سیئٹل کے سینٹر برائے ماحولیاتی فرانزک سائنس اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اس رپورٹ کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔