’ ایڈز کے ہر مریض کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔ ہر ایک عزت و احترام کے لائق ہے۔ ہر ایک محبت کا مستحق ہے۔ میں آپ کو یہ اِس لیے بتا رہا ہوں، کیونکہ ایڈز کا سبب ایک وائرس ہے۔ لیکن، ایڈز وبا نہیں۔ ایڈز کو بدنامی کے دھبے، نفرت، غلط اطلاعات اور ناواقفیت سے ہوا ملتی ہے‘
برطانیہ کے مشہور زمانہ راک اسٹار John Eltonنے واشنگٹن میں ہونے والی ’بین الاقوامی ایڈز کانفرنس‘ میں شرکت کی اور کہا کہ ایڈز کے پھیلاؤ میں شرمندگی اور بدنامی کا داغ لگنے کا بڑا ہاتھ ہے۔ اُن کے بقول، ’اِس کا مقابلہ کرنے کے لیے دوا ہی نہیں، بلکہ ہمدردی کی بھی ضرورت ہے‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’یہاں میں آپ کو، اور جو بھی میرے اِس پیغام کو سنے گا ، یہ بتانے آیا ہوں کہ اِس پیغام نے میری زندگی بچائی ہے۔ اِس سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ آپ چاہے کوئی بھی ہوں، یا کسی سے محبت کرتے ہوں، آپ چاہے جہاں بھی رہتے ہوں ، اور اِس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کیا کرتے ہیں۔ ہر ایک کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔ ہر ایک عزت و احترام کے لائق ہے۔ ہر ایک محبت کا مستحق ہے۔ میں آپ کو یہ اِس لیے بتا رہا ہوں ، کیونکہ ایڈز کا سبب ایڈز نہیں بلکہ ایک وائرس ہے۔ لیکن، ایڈز وبا نہیں ہے۔ ایڈز کو بدنامی کے داغ stigma، نفرت، غلط اطلاعات اور ناواقفیت سے ہوا ملتی ہے‘۔
ایلٹن نے کہا کہ کسی ویکسین کی دریافت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن، الگ تھلگ کیے جانے اور بدنامی کے ڈر سےمریض نہ تو تشخیص کرواتے ہیں اور نہ ہی علاج۔ واشنگٹن میں نمائش کی جانےوالی Aids Memorial Quilt کی تعریف کرتے ہوئے، جو اس بیماری کے ہاتھوں لقمہٴ اجل بنے ہیں، اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس بیماری کے ساتھ جو لوگ زندہ ہیں اُن سے زیادہ محبت کا اظہار کیا جائے۔
جان ایلٹن نےدنیا بھر میں ایڈز کے علاج کے پروگراموں کی فنڈنگ کے لیے امریکہ کی بھی تعریف کی۔
ایلٹن کے بہت سے دوست اِس موذی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔
اِس موقعے پر جان ایلٹن نے ایک نغمہ گایا، جو اُنھوں نے اُس لڑکے کی نذر کیا جو ایڈز میں مبتلہ ہے اور آخری وقت میں اُس کا باپ اُس کے سرہانے بیٹھا ہے۔
ایلٹن کے گائے ہوئے نغمے کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
کل جب آپ میری ہمت بڑھانے کے لئے آئے،
تو گویا میں ایک چڑیا کی طرح نازک اور تنکے کی مانند ہلکا پھلکا تھا
آج میرا وزن دیوار کے سائے سے بھی کم ہے
میں صرف سرگوشی کر سکتا ہوں جو کوئی سن بھی نہیں سکتا
کل دریچے وا رکھنا
خوف بڑھتا جا رہا ہے
مجھے اپنی بانہوں میں لے لیجئے
آپ میرے غصے کو ٹھنڈا کرنے میں میری مدد نہیں کریں گے؟
مجھے پر سکون رہنے کے لئے آپ کے نرم ہاتھوں کی ضرورت ہے
وہ باتیں جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیں، مجھےوہ سب یاد آرہی ہیں، اور اب وہ سچائیاں میرا پیچھا نہیں کر رہیں
آج رات ہم نے وہ تمام ان کہی باتیں کیں
ان تمام باتوں کو جان کر کہ اب میں آزاد ہو گیا ہوں
کیونکہ میں نے ہارنے کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا، میں نے تو ہمیشہ جیت کا ہی سوچا تھا
میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میں اپنے اندر اس آگ کو محسوس کر سکوں گا
مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ آئیں گے
شاید مجھے باپ اور بیٹے کے درمیان محبت کا اندازہ ہی نہ تھا۔
اُن کے الفاظ میں: ’یہاں میں آپ کو، اور جو بھی میرے اِس پیغام کو سنے گا ، یہ بتانے آیا ہوں کہ اِس پیغام نے میری زندگی بچائی ہے۔ اِس سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ آپ چاہے کوئی بھی ہوں، یا کسی سے محبت کرتے ہوں، آپ چاہے جہاں بھی رہتے ہوں ، اور اِس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کیا کرتے ہیں۔ ہر ایک کو ہمدردی کی ضرورت ہے۔ ہر ایک عزت و احترام کے لائق ہے۔ ہر ایک محبت کا مستحق ہے۔ میں آپ کو یہ اِس لیے بتا رہا ہوں ، کیونکہ ایڈز کا سبب ایڈز نہیں بلکہ ایک وائرس ہے۔ لیکن، ایڈز وبا نہیں ہے۔ ایڈز کو بدنامی کے داغ stigma، نفرت، غلط اطلاعات اور ناواقفیت سے ہوا ملتی ہے‘۔
ایلٹن نے کہا کہ کسی ویکسین کی دریافت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن، الگ تھلگ کیے جانے اور بدنامی کے ڈر سےمریض نہ تو تشخیص کرواتے ہیں اور نہ ہی علاج۔ واشنگٹن میں نمائش کی جانےوالی Aids Memorial Quilt کی تعریف کرتے ہوئے، جو اس بیماری کے ہاتھوں لقمہٴ اجل بنے ہیں، اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس بیماری کے ساتھ جو لوگ زندہ ہیں اُن سے زیادہ محبت کا اظہار کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جان ایلٹن نےدنیا بھر میں ایڈز کے علاج کے پروگراموں کی فنڈنگ کے لیے امریکہ کی بھی تعریف کی۔
ایلٹن کے بہت سے دوست اِس موذی مرض کا شکار ہوئے ہیں۔
اِس موقعے پر جان ایلٹن نے ایک نغمہ گایا، جو اُنھوں نے اُس لڑکے کی نذر کیا جو ایڈز میں مبتلہ ہے اور آخری وقت میں اُس کا باپ اُس کے سرہانے بیٹھا ہے۔
ایلٹن کے گائے ہوئے نغمے کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
کل جب آپ میری ہمت بڑھانے کے لئے آئے،
تو گویا میں ایک چڑیا کی طرح نازک اور تنکے کی مانند ہلکا پھلکا تھا
آج میرا وزن دیوار کے سائے سے بھی کم ہے
میں صرف سرگوشی کر سکتا ہوں جو کوئی سن بھی نہیں سکتا
کل دریچے وا رکھنا
خوف بڑھتا جا رہا ہے
مجھے اپنی بانہوں میں لے لیجئے
آپ میرے غصے کو ٹھنڈا کرنے میں میری مدد نہیں کریں گے؟
مجھے پر سکون رہنے کے لئے آپ کے نرم ہاتھوں کی ضرورت ہے
وہ باتیں جو ہم نے پہلے کبھی نہیں کیں، مجھےوہ سب یاد آرہی ہیں، اور اب وہ سچائیاں میرا پیچھا نہیں کر رہیں
آج رات ہم نے وہ تمام ان کہی باتیں کیں
ان تمام باتوں کو جان کر کہ اب میں آزاد ہو گیا ہوں
کیونکہ میں نے ہارنے کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا، میں نے تو ہمیشہ جیت کا ہی سوچا تھا
میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میں اپنے اندر اس آگ کو محسوس کر سکوں گا
مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ آئیں گے
شاید مجھے باپ اور بیٹے کے درمیان محبت کا اندازہ ہی نہ تھا۔