جولی آفتاب کا نیا جنم

جولی آفتاب

جولی کہتی ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کو الزام نہیں دیتیں اور ایک عیسائی ہونے کے ناطے وہ ان افراد کو جنہوں نے تیزاب سے ان کا چہرہ مسخ کیا تھا، معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔
حال ہی میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں امریکی شہریت کا حلف اٹھانے والوں میں ایک26 پاکستانی خاتون جولی آفتاب بھی شامل تھی جو دس سال قبل اس حالت میں امریکہ آئی تھی کہ اس کا چہرہ تیزاب سے جھلساہواتھا۔ پاکستان میں تیزاب پھینک کر خواتین کے چہروں کو مسخ کرنے کے واقعات بالعموم منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔

ہوسٹن کے ڈاکٹروں نے جولی کا چہرہ درست کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے ، اگرچہ وہ ابھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئی ہیں لیکن انہوں نے اپنی معمول کی زندگی دوبارہ شروع کردی ہے اور وہ اپنے وطن میں تیزاب سے جھلس جانے والی خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔

جولی آفتاب



شہریت کا حلف اٹھانے کے بعد جولی آفتاب کا کہناہے کہ انہوں نے یہ دن دیکھنے کے لیے ساڑھے آٹھ سال تک انتظار کیا ہے اور وہ حلف کے الفاظ کی قدر وقیمت سے آگاہ ہیں۔

دس سال قبل پاکستان میں جب ان کی عمر صرف 16 سال تھی، دو آدمیوں نے تیزاب پھینک کر ان کا چہرہ جھلسا دیاتھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ عیسائی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بعد میں حملہ آوروں نے یہ جھوٹی افواہ پھیلائی کہ میں نے اسلام کی بے حرمتی کی تھی، جس پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا، اور اس نے جولی اور اس کے خاندان کو دھمکیاں دیں۔


وہ کہتی ہیں کہ ہمارے دوست ہمارے دشمن بن گئے اور انہوں نے ہمارے گھر کو آگ لگادی۔
جولی گذشتہ آٹھ برسوں سے لی اور گلوریا ارون کے ساتھ رہ رہی ہیں جنہیں وہ انکل اور آنٹی کہتی ہیں۔

لی کا کہناہے کہ جولی کا ہمارے گھر میں آنا باعث رحمت ہے۔


Your browser doesn’t support HTML5

جولی آفتاب




جولی آفتاب کہتی ہیں کہ والدین نے تو مجھے جنم دیا تھا لیکن یہ دونوں مجھے اس دنیا میں لائے ہیں۔ انہوں نے اپنی بہت سی راتیں میرے ساتھ بیٹھ کر مجھے انگریزی سکھاتے ہوئے گذاریں ۔ لوگ کہتے ہیں فرشتے دکھائی نہیں دیتے لیکن میں روزانہ فرشتوں کو اپنے آس پاس دیکھتی ہوں۔

جولی ابھی تک اپنے وطن اور اپنےخاندان کو یاد کرتی ہیں لیکن ان کا کہناہےکہ پاکستان ان سے بیگانہ ہوگیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھے پاکستانی ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے لیکن پاکستان کو مجھ پر شرمندگی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اسے میری ضرورت نہیں ہے۔

اگرچہ جولی یہاں ہیں مگر ان کے ساتھی پاکستان میں متاثرہ خواتین کی مدد کررہے ہیں۔
جولی بتاتی ہیں کہ وہ سب خواتین ہیں ۔ لیکن خاتون ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ انسان نہیں ہے۔ وہ کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن ہے۔

جولی کہتی ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کو الزام نہیں دیتیں اور ایک عیسائی ہونے کے ناطے وہ ان افراد کو جنہوں نے تیزاب سے ان کا چہرہ مسخ کیا تھا، معاف کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں ان سے نفرت کروں گی تو اس سے مزید نفرتیں پیدا ہوں گی اور میں یہ نہیں چاہتی۔

امریکی شہریت حاصل کرنے والے ایک اور پاکستانی نوید عیسیٰ نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں ان کا جنم ہوا تھا، دوسرے عقائد کے لوگوں کے خلاف تشدد کے لیے اسلام کو بہانہ بنانے کا غلط استعمال رک جائے گا۔

نوید کا کہناتھا کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ وہ قرآن کے بارے میں نہیں جانتے۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ قرآن ہر ایک کے احترام کا درس دیتا ہے، دوسرے مذاہب کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔

پاکستان کے قانون سازوں نے تیزاب سے حملہ کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں متعارف کرائی ہیں، لیکن ایسے واقعات اب بھی ہورہے ہیں اور ان کا زیادہ تر نشانہ مسلمان خواتین بنتی ہیں۔

جولی آفتاب نے یہاں اپنے قیام کے دوران ملازمت کرنے کےساتھ ساتھ کالج میں تعلیم بھی حاصل کی اور گرجاگھر کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہیں۔
امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد جولی آفتاب اب اپنے ماضی کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتیں کیونکہ اب ان کی نظر اپنے مستقبل پر ہے۔