سندھ میں پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی پیپلزپارٹی کے اس امر سے سخت ناراض ہیں کہ انہیں سندھ میں بلدیاتی نظام سے متعلق نئے مسودے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔
صوبہ سندھ میں طویل مشاورت کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نئے بلدیاتی نظام پر متفق ہو گئے لیکن اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے علاوہ کئی سوالات اور خدشات نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔
موجودہ حکومت کے قیام سے ہی سندھ میں بلدیاتی نظام پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔اس معاملے پر ایم کیو ایم حکومت سے الگ بھی ہوئی اور اسی دوران جولائی 2011 میں پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی میں کثرت رائے سے کمشنری نظام بحال کرنے کا بل بھی منظور کرا لیا تھا ۔
لیکن کچھ عرصے بعد ایم کیو ایم پھر حکومت کا حصہ بنی اور گورنر سندھ نے اگست 2011 کے اوائل میں آرڈینس کے ذریعے 2001 کا مقامی حکومتوں کا نظام بحال کردیاتاہم اس آرڈینس کی مدت تین ماہ کے بعد ختم ہو گئی اور صوبے میں خود بخود کمشنری نظام بحال ہو گیا ۔
پیپلزپارٹی سابق فوجی جنرل (ر) ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام میں کچھ ترامیم کے ساتھ اسے نافذ کرنے کی حمایت کرتی رہی جبکہ ایم کیو ایم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی بحالی چاہتی تھی۔ بلدیاتی انتخابات کے نئے مسودے پر طویل مشاورت ہوئی اور بالآخر دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے ہو گیا ہے ۔
دوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی پیپلزپارٹی کے اس امر سے سخت ناراض ہیں کہ انہیں سندھ میں بلدیاتی نظام سے متعلق نئے مسودے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ مسلم لیگ ق سندھ کے جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ نے بتایا کہ بلدیاتی نظام کے آرڈیننس پر ان کی جماعت کواعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں جن سے مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا ہے۔
مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کے آرڈینس سے ان کی جماعت کا کوئی تعلق نہیں ۔ آرڈینس سامنے آنے پر اس پر کھل کر خیالات کا اظہار کیا جائے گا ۔
اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کی بھر پور مخالفت کی جائے گی کیوں کہ یہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقدامات کو توسیع دیتا ہے۔
علاوہ ازیں اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے انتخابات کی بعض حلقہ بندیوں پربھی تحفظات برقرار ہیں ۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ عام انتخابات میں چند ماہ کا وقت رہتا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے الیکشن کمیشن بھی مشکل میں پڑ جائے گا ۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے ووٹر لسٹیں تیار کر لیں ہیں ۔اگر اسے بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تووہ عام انتخابات پر کیسے توجہ دے گا ؟
بیسویں ترمیم نے اس ادارے کی انتخابات میں ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کا بلدیاتی انتخابات کیلئے ضابطہ اخلاق بھی ترتیب دینا ہو گا۔
مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی قیادت بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات کے التوا کیلئے حکومتی حربہ قرار دے رہی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈال کر ایک مرتبہ پھر موجودہ اسمبلیوں سے ایوان صدر میں اپنا جیالا بٹھانا چاہتی ہے ۔
موجودہ حکومت کے قیام سے ہی سندھ میں بلدیاتی نظام پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔اس معاملے پر ایم کیو ایم حکومت سے الگ بھی ہوئی اور اسی دوران جولائی 2011 میں پیپلزپارٹی نے سندھ اسمبلی میں کثرت رائے سے کمشنری نظام بحال کرنے کا بل بھی منظور کرا لیا تھا ۔
لیکن کچھ عرصے بعد ایم کیو ایم پھر حکومت کا حصہ بنی اور گورنر سندھ نے اگست 2011 کے اوائل میں آرڈینس کے ذریعے 2001 کا مقامی حکومتوں کا نظام بحال کردیاتاہم اس آرڈینس کی مدت تین ماہ کے بعد ختم ہو گئی اور صوبے میں خود بخود کمشنری نظام بحال ہو گیا ۔
پیپلزپارٹی سابق فوجی جنرل (ر) ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام میں کچھ ترامیم کے ساتھ اسے نافذ کرنے کی حمایت کرتی رہی جبکہ ایم کیو ایم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی بحالی چاہتی تھی۔ بلدیاتی انتخابات کے نئے مسودے پر طویل مشاورت ہوئی اور بالآخر دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے ہو گیا ہے ۔
دوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی پیپلزپارٹی کے اس امر سے سخت ناراض ہیں کہ انہیں سندھ میں بلدیاتی نظام سے متعلق نئے مسودے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ مسلم لیگ ق سندھ کے جنرل سیکریٹری حلیم عادل شیخ نے بتایا کہ بلدیاتی نظام کے آرڈیننس پر ان کی جماعت کواعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں جن سے مرکزی قیادت کو آگاہ کردیا ہے۔
مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کے آرڈینس سے ان کی جماعت کا کوئی تعلق نہیں ۔ آرڈینس سامنے آنے پر اس پر کھل کر خیالات کا اظہار کیا جائے گا ۔
اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کی بھر پور مخالفت کی جائے گی کیوں کہ یہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقدامات کو توسیع دیتا ہے۔
علاوہ ازیں اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے انتخابات کی بعض حلقہ بندیوں پربھی تحفظات برقرار ہیں ۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ عام انتخابات میں چند ماہ کا وقت رہتا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے الیکشن کمیشن بھی مشکل میں پڑ جائے گا ۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے ووٹر لسٹیں تیار کر لیں ہیں ۔اگر اسے بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تووہ عام انتخابات پر کیسے توجہ دے گا ؟
بیسویں ترمیم نے اس ادارے کی انتخابات میں ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کا بلدیاتی انتخابات کیلئے ضابطہ اخلاق بھی ترتیب دینا ہو گا۔
مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی قیادت بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات کے التوا کیلئے حکومتی حربہ قرار دے رہی ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات کو التوا میں ڈال کر ایک مرتبہ پھر موجودہ اسمبلیوں سے ایوان صدر میں اپنا جیالا بٹھانا چاہتی ہے ۔