امریکی اخبارات سے: اوباما کو درپیش چیلنجز

صدر اوباما کی انتخابی مہم کے منتظمین کو اندازہ ہےکہ اگلے دو ماہ کے دوران اگر کوئی بھاری گھپلا ہوا تو اِس سے صدر کی اُن کوششوں میں دشواریاں آئیں گی جِن کا مقصد عوام کی توجہ مستقبل پر مرکوز رکھنا ہے: ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘
اب جب کہ دونوں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کےقومی کنوینشن ختم ہوگئے ہیں اور جمعرات کو صدر اوباما نے ڈیموکریٹک کنویشن میں صدارتی نامزدگی قبول کرنے کے بعد ایک تقریر میں اپنی انتخابی حکمت عملی کی وضاحت کی۔ تجزیہ کاروں کی نگاہ اس پر ہے کہ نومبر کے انتخابات تک مسٹر اوباما کو کِن چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما کی انتخابی مہم کے منتظمین کو اندازہ ہے کہ اگلے دو ماہ کے دوران اگر کوئی بھاری گھپلا ہوا تو اِس سے صدر کی اُن کوششوں میں دشواریاں آئیں گی جِن کا مقصد عوام کی توجہ مستقبل پر مرکوز رکھنا ہے۔

مسٹر اوباما ابھی کنوینشن میں اپنی تقریر ختم بھی نہ کرپائے تھے کہ اُن کے حریف مِٹ رامنی کے معاونین نے اُن اعداد و شمار کی طرف توجہ مبذول کرانا شروع کی جِن کا ڈیموکریٹک کنوینشن میں ہونے والی تقریروں میں کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔

اُن کے ایک سینئر معاون اسٹیوارٹ سٹیفنز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پچھے چار سال کے دوران متوسط طبقہ پِس چکا ہے اور صدر اوباما کا سارا زور منفی اشتہار بازی پر ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ڈیموکریٹوں کو اعتراف ہے کہ اُنھیں مشکل کام درپیش ہے۔ پھر بھی اُنھیں یہ اطمینان ہے کہ اُنھیں اس انتخابی مقابلے کو دو مختلف راستوں میں سے ایک کے انتخاب میں بدل دینے میں کامیابی ہوئی ہے۔ یعنی مسٹر رامنی کی اُن کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے جِن کا مقصد صدارتی انتخابات کو مسٹر اوباما کی میعاد ِ صدارت پر ریفرینڈم کا رنگ دینا ہے۔



آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے




اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کے معاونین کا رائے عامہ کے اُن جائزوں سے حوصلہ بڑھا ہے جِن کے مطابق اکثریت کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ دولت مند طبقہ ٹیکسوں میں اپنا پورا حصہ ادا نہیں کرتا اور یہ کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پبلک شعبے میں منصوبوں پر سرمایہ لگانا ضروری ہے اور اس کے علاوہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کے لیے صدر اوباما پر اتنا الزام نہیں آتا جتنا کہ اُن کے پیشرو پر آتا ہے۔

اخبار نے ورمانٹ کے سینیٹر پیٹرک لے ہی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈیموکریٹک کنوینشن میں شرکت کرنے کے بعد اُن کی امیدیں بڑھ گئی ہیں، لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس رجائیت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا صدر اوباما ووٹروں کی توجہ آنے والے چار برسوں پر مرکوز رکھ سکیں گے۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ ڈیموکریٹک کنوینشن میں تقریر کرنے کے بعد صدر اوباما کا اگلا پڑاؤ نیو ہیم شائر ہوگا جس کے بعد وہ آیووا اور پھر فلوریڈا جائیں گے۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ تینوں ریاستیں ایسی ہیں کہ اِن میں دونوں صدارتی امیدواروں میں سے کوئی بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔ لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ اگر مسٹر اوباما اِن تینوں ریاستوں میں ہار بھی جائیں اس کے باوجود اُن کا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر نے اصل میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز ایک سال قبل کیا تھا اور اُس وقت اُن کے ذہن میں کئی متبادل تھے جن کی مدد سے وہ دوبارہ منتخب ہونے کے لیے ضروری 270الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکتے ہیں اور ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عملی طور پر اُن میں سے ہر متبادل قابلِ حصول ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ انتخابی مہم کے آخری مرحلے پر سابق صدر بِل کلنٹن کا سہارا لیا جارہا ہے جِن کی کوشش محنت کش طبقے کے اُن سفید فام لوگوں کو اپنی طرف کرنا ہے جِن کا جھکاؤ مسٹر رامنی کی طرف ہے۔

اس اخبار کے ایک سابقہ جائزے کے مطابق ووٹروں کے اس طبقے میں اوباما کی مقبولیت کا تناسب محض 42فی صد ہے۔

اخبار کے بقول، خاتونِ اول مشل اوباما کی صلاحیتوں کو بھی بُروئے کار لایا جارہا ہے اور اُنھیں پارٹی کے بعض سب سے زیادہ وفادار لوگوں سے خطاب کرنے کو کہا گیا ہے۔ وہ ووٹروں کی حمایت کرنے کے لیے ریڈیو انٹرویوز دیتی آئی ہیں اور اِن ووٹروں میں ہسپانوی زبان بولنے والے اس ہم جنس پرست شامل ہیں۔