صدر براک اوباما نے جمعرات کی شب ڈیموكریٹک نیشنل كنونشن میں نومبر 2012ء كے صدارتی انتخاب كے لیے اُمیدوار كی نامزدگی باضابطہ طور پر قبول كرنے كے بعد اپنے حامیوں پرزور دیا کہ وہ انتخابی مہم کے باقی ماندہ دومہینوں میں بھی اسی طرح ان کا ساتھ دیں۔
صدر اوباما کی یہ تقریر ان کی انتخابی مہم کی اب تک کی تقریروں میں سب سے اہم تقریر تھی۔ اور جب انہوں نے تقریر کے دوران اپنے اقتصادی ریکارڈ کادفاع کرتے ہوئے حاضرین سے پوچھا کہ کہ آیا وہ انہیں دوسری مدت کے لیے وہائٹ ہاؤس میں دیکھناچاہتے ہیں تو کنونشن ہال میں موجود ڈیموکریٹس نے بڑے جوش وخروش سےان کاساتھ دینے کا اقرار کیا۔
صدر اوباما کا کہناتھا کہ ہمارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔درپیش چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے چنا جانے والا راستہ دشوار ہوسکتا ہے لیکن وہ ہمیں ایک بہتر منزل کی جانب لے جائے گا اور میں آپ سےیہ کہنا ہےکہ آپ اپنے مستقبل کا انتخاب کریں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اس سال میرے اور ری پبلیکن مٹ رومنی کے درمیان ہونے والے انتخاب میں امریکیوں کو نسل، معیشت، ٹیکسوں، توانائی اور جنگ اور ا من سے متعلق مسائل پر ایک واضح چناؤ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی پالیسیوں سے، ری پبلیکن پارٹی کی سوچ کے برعکس ایک وسیع مڈل کلاس جنم لے گی جس کے بارے میں صدر کا کہناتھا کہ اس سے متمول اور خوش حال امریکہ کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگی۔
مسٹر اوباما نے اپنی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کا بھی دفاع کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے عراق میں جنگ کے خاتمے ، افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے منصوبے اور القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیےسپیشل فورسز کے مشن کا حوالہ دیا۔
صدر نے اپنی تقریر کا اختتام اپنے حامیوں سے قومی یکجہتی کی اپیل کے ساتھ کیا۔
صدر اباما کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک ایسے ملک پر یقین رکھتے ہیں جہاں ہر ایک کو جائز موقع ملے اور ہر ایک کو اپنا جائز حصہ ملے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تو پھر آپ کو چاہیے کہ نومبر کے انتخابات میں آپ مجھے ووٹ دیں۔
کنونشن میں نائب صدر جوبائیڈن مسٹر اوباما کو سامنے لائے ، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مٹ رومنی اور ان کے صدارتی نائب وسکانسن سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین پال ریان کےخلاف انتخابی مہم میں کریٹک ان چیف کا کردار ادا کریں گے
بائیڈن نے اپنی تقریر میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے مشن اور امریکہ کی موٹر سازی کی صنعت کے لیے بیل آؤٹ منصوبوں کی منظوری کو صدر اوباما کے جرآت مندانہ فیصلے قرار دیا اور انہوں نے صدر اوباما کے موجودہ چار سالہ دور کا دفاع بھی کیا۔
ان کا کہناتھا کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران میں جو کچھ کہتا رہاہوں ہم اس پرفخر کرسکتے ہیں ، یعنی اسامہ بن لادن ہلاک ہوچکا ہے اور جنرل موٹرز انڈسٹری کو زندگی مل گئی ہے۔
رومنی ک انتخابی مہم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اپنا انتخابی مقدمہ انہی پالیسیوں کی بنیاد پر تیار کررہے ہیں جو ان کے اقتدار کے گذشتہ چار برسوں میں ناکام رہی ہیں۔
صدر اوباما کی تقریر سے تین روزہ ڈیموکریٹک کنونشن کو ایک ڈرامائی کلائمکس مل گیا ہے اور بہت سے ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹس کا کہناہے کہ وہ انتخابی مہم کے آخری دو مہینوں میں مقابلے کے لیے اپنے اندر مزید توانائی محسوس کررہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے ابھی تک دونوں پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ لیکن اب دونوں صدارتی امیدواروں نے نئی قوت اور جوش وجذبے کے ساتھ اپنی مہم آگے بڑھانی شروع کردی ہے اور وہ اپنی زیادہ تر توجہ ان درجنوں ریاستوں پر مرکوز کررہے ہیں جہاں ووٹوں کافرق زیادہ نہیں ہے اور جو ممکنہ طور پر چھ نومبر کے صدراتی الیکشن کی ہارجیت کا فیصلہ کریں گی۔
صدر اوباما کی یہ تقریر ان کی انتخابی مہم کی اب تک کی تقریروں میں سب سے اہم تقریر تھی۔ اور جب انہوں نے تقریر کے دوران اپنے اقتصادی ریکارڈ کادفاع کرتے ہوئے حاضرین سے پوچھا کہ کہ آیا وہ انہیں دوسری مدت کے لیے وہائٹ ہاؤس میں دیکھناچاہتے ہیں تو کنونشن ہال میں موجود ڈیموکریٹس نے بڑے جوش وخروش سےان کاساتھ دینے کا اقرار کیا۔
صدر اوباما کا کہناتھا کہ ہمارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔درپیش چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے چنا جانے والا راستہ دشوار ہوسکتا ہے لیکن وہ ہمیں ایک بہتر منزل کی جانب لے جائے گا اور میں آپ سےیہ کہنا ہےکہ آپ اپنے مستقبل کا انتخاب کریں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ اس سال میرے اور ری پبلیکن مٹ رومنی کے درمیان ہونے والے انتخاب میں امریکیوں کو نسل، معیشت، ٹیکسوں، توانائی اور جنگ اور ا من سے متعلق مسائل پر ایک واضح چناؤ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی پالیسیوں سے، ری پبلیکن پارٹی کی سوچ کے برعکس ایک وسیع مڈل کلاس جنم لے گی جس کے بارے میں صدر کا کہناتھا کہ اس سے متمول اور خوش حال امریکہ کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگی۔
مسٹر اوباما نے اپنی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کا بھی دفاع کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے عراق میں جنگ کے خاتمے ، افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے منصوبے اور القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیےسپیشل فورسز کے مشن کا حوالہ دیا۔
صدر نے اپنی تقریر کا اختتام اپنے حامیوں سے قومی یکجہتی کی اپیل کے ساتھ کیا۔
صدر اباما کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایک ایسے ملک پر یقین رکھتے ہیں جہاں ہر ایک کو جائز موقع ملے اور ہر ایک کو اپنا جائز حصہ ملے اور ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تو پھر آپ کو چاہیے کہ نومبر کے انتخابات میں آپ مجھے ووٹ دیں۔
کنونشن میں نائب صدر جوبائیڈن مسٹر اوباما کو سامنے لائے ، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مٹ رومنی اور ان کے صدارتی نائب وسکانسن سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین پال ریان کےخلاف انتخابی مہم میں کریٹک ان چیف کا کردار ادا کریں گے
بائیڈن نے اپنی تقریر میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے مشن اور امریکہ کی موٹر سازی کی صنعت کے لیے بیل آؤٹ منصوبوں کی منظوری کو صدر اوباما کے جرآت مندانہ فیصلے قرار دیا اور انہوں نے صدر اوباما کے موجودہ چار سالہ دور کا دفاع بھی کیا۔
ان کا کہناتھا کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران میں جو کچھ کہتا رہاہوں ہم اس پرفخر کرسکتے ہیں ، یعنی اسامہ بن لادن ہلاک ہوچکا ہے اور جنرل موٹرز انڈسٹری کو زندگی مل گئی ہے۔
رومنی ک انتخابی مہم نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اپنا انتخابی مقدمہ انہی پالیسیوں کی بنیاد پر تیار کررہے ہیں جو ان کے اقتدار کے گذشتہ چار برسوں میں ناکام رہی ہیں۔
صدر اوباما کی تقریر سے تین روزہ ڈیموکریٹک کنونشن کو ایک ڈرامائی کلائمکس مل گیا ہے اور بہت سے ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹس کا کہناہے کہ وہ انتخابی مہم کے آخری دو مہینوں میں مقابلے کے لیے اپنے اندر مزید توانائی محسوس کررہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے ابھی تک دونوں پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ لیکن اب دونوں صدارتی امیدواروں نے نئی قوت اور جوش وجذبے کے ساتھ اپنی مہم آگے بڑھانی شروع کردی ہے اور وہ اپنی زیادہ تر توجہ ان درجنوں ریاستوں پر مرکوز کررہے ہیں جہاں ووٹوں کافرق زیادہ نہیں ہے اور جو ممکنہ طور پر چھ نومبر کے صدراتی الیکشن کی ہارجیت کا فیصلہ کریں گی۔