اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدی کے نصف تک ایک عام انسان اوسطاً 74 سال تک زندہ رہ سکے گا۔ جب کہ آج پیدا ہونے والے بچے اوسطاً 83 سال کی عمریں پاسکیں گے۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں ہزار برس تک جینے کی دعا دی تھی، اور برس بھی ایسا جو پچاس ہزار دنوں کا ہو۔ جب کہ امریکہ کے ایک دانش ور ریمنڈ کروز ویل اس سے بھی آگے کا سوچ رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اگروہ 2050 تک زندہ رہنے میں کامیاب ہوگئے توپھر انہیں کبھی موت نہیں آئے گی ، کیونکہ اس وقت تک سائنسی ترقی موت کوشکست دے دے گی اور انسان کو زندہ رکھنے کے لیے روبوٹک پرزوں کا استعمال عام ہوجائے گا۔ سائنس پر کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف اورایک درجن سے زیادہ پی ایچ ڈی ڈگریاں حاصل کرنے والےکروز ویل کی عمر اس وقت 64 سال ہے اور وہ مزید 38 سال زندہ رہنے کے لیے ہر ممکن احتیاط کررہے ہیں۔
ماضی میں انسان کی عمر کچھ زیادہ نہیں تھی، اہرام مصر کے دور میں، خود کو خدا کہلوانے والے فرعون بھی محض 30 سے 35 سال کی عمر پاتے تھے۔ گذشتہ صدی کے نصف میں جب پاکستان آزاد ہوا تو جنوبی ایشیا میں عمر کی اوسط طوالت 50 سال کے لگ بھگ تھی اور ایشیا اور افریقہ کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی حال تھا۔ لیکن پچھلے چند عشروں میں انسان کی اوسط عمر میں نمایاں ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں سابق سویت یونین کے علاقے جارجیا کی ایک خاتون انتی سا خوکاوا نے اپنی 132 ویں سالگرہ منائی ہے۔
تاہم خوکاوا سو سال کی سرحد عبور کرنےوالی تنہا خاتون نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں سو سال سے بڑی عمر کے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
جاپان دنیا کا ایک ایساملک ہے جس کی کل آبادی کا 30 فی صد حصہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صدی کے وسط تک اس صف میں مزید64 ممالک شامل ہوجائیں گے۔
انسان کی اوسط عمر بڑھنے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں صحت کی دیکھ بھال سے متعلق معلومات میں اضافہ، طبی شعبے میں جدید تحقیق ، لوگوں کی آمدنیوں اور مالی وسائل میں اضافہ، جس سے ان کی خوراک اور رہنے سہنے کا معیار بلند ہونے میں مدد مل رہی ہے، شامل ہیں۔
زندگی کی طوالت میں دیگر عوامل کے علاوہ آب وہوا اور موسم کا بھی اہم کردار ہے۔ پہاڑی مقامات پر رہنے والے لوگ جہاں آب وہوا مصفا ہوتی ہے، میدانی اور گرم علاقوں میں رہنے والوں کی نسبت زیادہ طویل عمریں پاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نصف صدی پہلے تک جن ترقی پذیر ممالک میں عمر کی اوسط 50 سال سے کم تھی ، اب وہاں لوگ اوسطاًٰ 68 سال کی عمر تک جی رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدی کے نصف تک ایک عام انسان اوسطاً 74 سال تک زندہ رہ سکے گا۔ جب کہ آج پیدا ہونے والے بچے اوسطاً 83 سال کی عمریں پاسکیں گے۔
لیکن جہاں انسان کی عمرکی طوالت بڑھ رہی ہے، وہاں کئی نئی طرح کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ عمر سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ’ ہیلپ ایج انٹرنیشنل‘ کے سربراہ رچرڈ بلیوٹ کا کہناہے کہ اکثر ممالک میں بڑی عمر کے افراد معیشت کی افزائش میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہے اور وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہے ہیں ۔
انسانی عمر کی طوالت میں اضافہ سائنسی لحاظ سے تو خوش آئند ہے لیکن معیشت پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں پنشن پر گذارہ کرنے والے افراد مسلسل بڑھ رہے ہیں اور اگر صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو آئندہ چند عشروں کے بعد اس فنڈ میں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ پنشن ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں معمر افراد کے تناسب سے اضافہ نہیں ہورہا۔
ترقی یافتہ ممالک میں معمر افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جوڑے بچے پیدا کرنے سے گریز کررہے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں مستقبل میں معیشت کاپہیہ چلانے والے مزید گھٹ جائیں گے۔ شاید اسی لیے سنگاپور کی حکومت بچے پیدا کرنے کے لیے مالی مراعات کے ذریعے اپنے شہریوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
اکثر ترقی یافتہ ممالک اپنی معیشت کی ترقی جاری رکھنے کے لیے دوسرے سے آنے والے کارکنوں اور ماہرین کا خیرمقدم کررہے ہیں، لیکن اس سے آبادی کا توازن بگڑ رہاہے۔ کیونکہ نئے آنے والے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکہ میں آبادی کے ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس صدی میں ہی گورے امریکی اقلیت بن جائیں گے۔
جن ممالک نے گذشتہ عشروں میں آبادی پر کنٹرول کے پروگرام چلائے تھے، انہیں ایک اور طرح کے سنگین مسئلے کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ اس سلسلے میں چین اور بھارت کی مثالیں نمایاں ہیں ۔ وہاں آبادی میں اضافے کی رفتار پر تو قابو پالیا گیا لیکن جنسی توازن بگر گیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں ملکوں میں لوگ عموما ً لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دیتے ہیں اور لڑکی کی صورت میں حمل ضائع کروادیتے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق وہاں مردوں کے مقابلے میں عورتیں کی تعداد نمایاں حد تک گر چکی ہے ، جس سے نئے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
آبادی کے ماہرین کا کہناہے انسانی عمر کی طوالت میں اضافہ ایک قابل ستائش پہلو ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد کے پاس تجربات اور معلومات کا وسیع ذخیرہ ہوتا ہے جن سے معاشرہ راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور ایسے ممالک میں جہاں معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے ، انہیں ایسے کام سونپے جاسکتے ہیں جہاں زیادہ جسمانی محنت درکار نہیں ہوتی۔ اس سے لیبر فورس میں کمی جیسے مسائل پر قابوپانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ماضی میں انسان کی عمر کچھ زیادہ نہیں تھی، اہرام مصر کے دور میں، خود کو خدا کہلوانے والے فرعون بھی محض 30 سے 35 سال کی عمر پاتے تھے۔ گذشتہ صدی کے نصف میں جب پاکستان آزاد ہوا تو جنوبی ایشیا میں عمر کی اوسط طوالت 50 سال کے لگ بھگ تھی اور ایشیا اور افریقہ کے اکثر ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی حال تھا۔ لیکن پچھلے چند عشروں میں انسان کی اوسط عمر میں نمایاں ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں سابق سویت یونین کے علاقے جارجیا کی ایک خاتون انتی سا خوکاوا نے اپنی 132 ویں سالگرہ منائی ہے۔
تاہم خوکاوا سو سال کی سرحد عبور کرنےوالی تنہا خاتون نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں سو سال سے بڑی عمر کے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
جاپان دنیا کا ایک ایساملک ہے جس کی کل آبادی کا 30 فی صد حصہ 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صدی کے وسط تک اس صف میں مزید64 ممالک شامل ہوجائیں گے۔
انسان کی اوسط عمر بڑھنے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں صحت کی دیکھ بھال سے متعلق معلومات میں اضافہ، طبی شعبے میں جدید تحقیق ، لوگوں کی آمدنیوں اور مالی وسائل میں اضافہ، جس سے ان کی خوراک اور رہنے سہنے کا معیار بلند ہونے میں مدد مل رہی ہے، شامل ہیں۔
زندگی کی طوالت میں دیگر عوامل کے علاوہ آب وہوا اور موسم کا بھی اہم کردار ہے۔ پہاڑی مقامات پر رہنے والے لوگ جہاں آب وہوا مصفا ہوتی ہے، میدانی اور گرم علاقوں میں رہنے والوں کی نسبت زیادہ طویل عمریں پاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نصف صدی پہلے تک جن ترقی پذیر ممالک میں عمر کی اوسط 50 سال سے کم تھی ، اب وہاں لوگ اوسطاًٰ 68 سال کی عمر تک جی رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدی کے نصف تک ایک عام انسان اوسطاً 74 سال تک زندہ رہ سکے گا۔ جب کہ آج پیدا ہونے والے بچے اوسطاً 83 سال کی عمریں پاسکیں گے۔
لیکن جہاں انسان کی عمرکی طوالت بڑھ رہی ہے، وہاں کئی نئی طرح کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ عمر سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ’ ہیلپ ایج انٹرنیشنل‘ کے سربراہ رچرڈ بلیوٹ کا کہناہے کہ اکثر ممالک میں بڑی عمر کے افراد معیشت کی افزائش میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہے اور وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہے ہیں ۔
انسانی عمر کی طوالت میں اضافہ سائنسی لحاظ سے تو خوش آئند ہے لیکن معیشت پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں پنشن پر گذارہ کرنے والے افراد مسلسل بڑھ رہے ہیں اور اگر صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو آئندہ چند عشروں کے بعد اس فنڈ میں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ پنشن ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں معمر افراد کے تناسب سے اضافہ نہیں ہورہا۔
ترقی یافتہ ممالک میں معمر افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جوڑے بچے پیدا کرنے سے گریز کررہے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں مستقبل میں معیشت کاپہیہ چلانے والے مزید گھٹ جائیں گے۔ شاید اسی لیے سنگاپور کی حکومت بچے پیدا کرنے کے لیے مالی مراعات کے ذریعے اپنے شہریوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔
اکثر ترقی یافتہ ممالک اپنی معیشت کی ترقی جاری رکھنے کے لیے دوسرے سے آنے والے کارکنوں اور ماہرین کا خیرمقدم کررہے ہیں، لیکن اس سے آبادی کا توازن بگڑ رہاہے۔ کیونکہ نئے آنے والے زیادہ بچے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکہ میں آبادی کے ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس صدی میں ہی گورے امریکی اقلیت بن جائیں گے۔
جن ممالک نے گذشتہ عشروں میں آبادی پر کنٹرول کے پروگرام چلائے تھے، انہیں ایک اور طرح کے سنگین مسئلے کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ اس سلسلے میں چین اور بھارت کی مثالیں نمایاں ہیں ۔ وہاں آبادی میں اضافے کی رفتار پر تو قابو پالیا گیا لیکن جنسی توازن بگر گیا ہے۔ کیونکہ ان دونوں ملکوں میں لوگ عموما ً لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دیتے ہیں اور لڑکی کی صورت میں حمل ضائع کروادیتے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق وہاں مردوں کے مقابلے میں عورتیں کی تعداد نمایاں حد تک گر چکی ہے ، جس سے نئے معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔
آبادی کے ماہرین کا کہناہے انسانی عمر کی طوالت میں اضافہ ایک قابل ستائش پہلو ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد کے پاس تجربات اور معلومات کا وسیع ذخیرہ ہوتا ہے جن سے معاشرہ راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور ایسے ممالک میں جہاں معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے ، انہیں ایسے کام سونپے جاسکتے ہیں جہاں زیادہ جسمانی محنت درکار نہیں ہوتی۔ اس سے لیبر فورس میں کمی جیسے مسائل پر قابوپانے میں مدد مل سکتی ہے۔