پہلی جماعت کی ایک ٹیچر وکٹوریہ سوٹو کے بارے میں بتایا گیاہے کہ انہوں نے ایک ڈھال کی طرح بچوں کو اپنے پیچھے چھیا لیا تھا اور گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگئیں۔
نیویارک —
پولیس نے ابھی تک شمال مشرقی امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک پرائمری اسکول میں اندھادھند فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے بچوں کے نام ظاہر نہیں کیے ہیں لیکن کئی دوسری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کے سٹاف کے کئی ارکان بچوں کو بچاتے ہوئے خود گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔
کنیٹی کٹ کے قصے نیوٹاؤن کے لوگوں نے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں قتل کیے جانے والے 20 بچوں اور چھ بالغ افراد کی یاد میں منعقد ہ ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
مشتبہ حملہ آور کی شناخت 20 سالہ ایڈم لینزا کے طور پر کی گئی ہے جس نے خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کرلیاتھا۔ اسکول میں فائرنگ سے پہلے اس نے مبینہ طور پر نیوٹاؤن میں واقع اپنے گھر میں اپنی والدہ ننسی لینزا کو بھی گولیاں برسا کرقتل کردیاتھا۔
سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول کے پرنسپل ڈون لیفرٹی ہاکس پرنگ اور اسکول کی ایک ماہر نفسیات میری شرلانچ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ موقع پر موجود ایک شخص کا کہناہے کہ ان دونوں نے راہداری میں گولیاں چلنے کی آواز سننے کے بعد بھاگ کر بچوں بچانے کی کوشش کی تھی۔
پہلی جماعت کی ایک ٹیچر وکٹوریہ سوٹو کے بارے میں بتایا گیاہے کہ انہوں نے ایک ڈھال کی طرح بچوں کو اپنے پیچھے چھیا لیا تھا اور گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگئیں۔
کیٹلن روئیگ سمیت کئی دوسرے ٹیچرز نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے بچوں کو کمروں میں بند کرکے دروازوں پر تالے ڈال دیے تھے۔
کیٹلن روئیگ کا کہناہے کہ میں یہ سوچ رہی تھی کہ اس وقت میں ان بچوں کے والدین کی طرح ہوں ، اور مجھے وہی کہنا چاہیے جو وہ کہتے، چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں آپ سب سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو ان کے کان سنیں گے ۔ میں سوچ رہی تھی کہ ہم سب مارے جائیں گے۔
بچوں کے قتل عام کے اس واقعہ نے امریکہ میں ہتھیار رکھنے کی آزادی پر پابندی کے مطالبے کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے، جہاں ہرسال تقریباً دس لوگ افراد مسلح افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں۔ پولیس کا کہناہے کہ پرائمری اسکول پر حملہ کرنے والے شخص کے پاس تین مہلک بندوقیں تھیں اور وہ تینوں قانونی طورپر اس کی والدہ کے نام پر رجسڑ تھیں۔
ادھر وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما نے اپنے آنسوصاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک اس طرح کے سانحات سے بہت بار گذر چکاہے۔
انہوں نے کہا یہ قصبے اور شہر ہمارے ہیں اور یہ بچے ہمارے بچے ہیں۔ اور اس طرح کے سانحات کو روکنے کے لیے ، ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھ کر، مل کر بامقصد اقدامات کرنے ہوں گے۔
وہائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کرنے والوں اور کئی سیاست دانوں نے،جن میں ہتھیاروں پر کنٹرول کے حق میں آواز اٹھانے والی تنظیم کے سربراہ اور نیویارک کے میئر مائیکل بلوم برگ بھی شامل ہی ، فوری عمل کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک بیان میں میئر بلوم برگ نے کہا کہ پہلے بھی فصاحت و بلاغت سے بھرپور خطابات سنتے رہے ہیں ۔ لیکن اپنی لیڈر شپ کو ہم نے اس پر کچھ کرتے نہیں دیکھا، نہ تو وہائٹ ہاؤس نے کچھ کیا ہے اور نہ ہی کانگریس نے۔
ہتھیار رکھنے کی آزادی کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن، کانگریس کے ارکان کو بڑے پیمانے پر عطیات دیتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ امریکہ میں ہتھیاروں پر پابندی کا قانون نہ ہونے کا بنیادی سبب اس تنظیم کا طاقت ور ہونا ہے۔ این آر اے کا کہناہے کہ ہتھیاروں پر کنٹرول آئین میں دیے گئے اس حق کی خلاف ورزی ہے جو ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
پولیس نے ابھی تک شمال مشرقی امریکی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک پرائمری اسکول میں اندھادھند فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے بچوں کے نام ظاہر نہیں کیے ہیں لیکن کئی دوسری رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کے سٹاف کے کئی ارکان بچوں کو بچاتے ہوئے خود گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے۔
کنیٹی کٹ کے قصے نیوٹاؤن کے لوگوں نے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں قتل کیے جانے والے 20 بچوں اور چھ بالغ افراد کی یاد میں منعقد ہ ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔
مشتبہ حملہ آور کی شناخت 20 سالہ ایڈم لینزا کے طور پر کی گئی ہے جس نے خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کرلیاتھا۔ اسکول میں فائرنگ سے پہلے اس نے مبینہ طور پر نیوٹاؤن میں واقع اپنے گھر میں اپنی والدہ ننسی لینزا کو بھی گولیاں برسا کرقتل کردیاتھا۔
سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول کے پرنسپل ڈون لیفرٹی ہاکس پرنگ اور اسکول کی ایک ماہر نفسیات میری شرلانچ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ موقع پر موجود ایک شخص کا کہناہے کہ ان دونوں نے راہداری میں گولیاں چلنے کی آواز سننے کے بعد بھاگ کر بچوں بچانے کی کوشش کی تھی۔
پہلی جماعت کی ایک ٹیچر وکٹوریہ سوٹو کے بارے میں بتایا گیاہے کہ انہوں نے ایک ڈھال کی طرح بچوں کو اپنے پیچھے چھیا لیا تھا اور گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگئیں۔
کیٹلن روئیگ سمیت کئی دوسرے ٹیچرز نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے بچوں کو کمروں میں بند کرکے دروازوں پر تالے ڈال دیے تھے۔
کیٹلن روئیگ کا کہناہے کہ میں یہ سوچ رہی تھی کہ اس وقت میں ان بچوں کے والدین کی طرح ہوں ، اور مجھے وہی کہنا چاہیے جو وہ کہتے، چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں آپ سب سے بہت زیادہ پیار کرتی ہوں اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو ان کے کان سنیں گے ۔ میں سوچ رہی تھی کہ ہم سب مارے جائیں گے۔
بچوں کے قتل عام کے اس واقعہ نے امریکہ میں ہتھیار رکھنے کی آزادی پر پابندی کے مطالبے کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے، جہاں ہرسال تقریباً دس لوگ افراد مسلح افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں۔ پولیس کا کہناہے کہ پرائمری اسکول پر حملہ کرنے والے شخص کے پاس تین مہلک بندوقیں تھیں اور وہ تینوں قانونی طورپر اس کی والدہ کے نام پر رجسڑ تھیں۔
ادھر وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما نے اپنے آنسوصاف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک اس طرح کے سانحات سے بہت بار گذر چکاہے۔
انہوں نے کہا یہ قصبے اور شہر ہمارے ہیں اور یہ بچے ہمارے بچے ہیں۔ اور اس طرح کے سانحات کو روکنے کے لیے ، ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھ کر، مل کر بامقصد اقدامات کرنے ہوں گے۔
وہائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کرنے والوں اور کئی سیاست دانوں نے،جن میں ہتھیاروں پر کنٹرول کے حق میں آواز اٹھانے والی تنظیم کے سربراہ اور نیویارک کے میئر مائیکل بلوم برگ بھی شامل ہی ، فوری عمل کا مطالبہ کیا۔ اپنے ایک بیان میں میئر بلوم برگ نے کہا کہ پہلے بھی فصاحت و بلاغت سے بھرپور خطابات سنتے رہے ہیں ۔ لیکن اپنی لیڈر شپ کو ہم نے اس پر کچھ کرتے نہیں دیکھا، نہ تو وہائٹ ہاؤس نے کچھ کیا ہے اور نہ ہی کانگریس نے۔
ہتھیار رکھنے کی آزادی کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن، کانگریس کے ارکان کو بڑے پیمانے پر عطیات دیتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ امریکہ میں ہتھیاروں پر پابندی کا قانون نہ ہونے کا بنیادی سبب اس تنظیم کا طاقت ور ہونا ہے۔ این آر اے کا کہناہے کہ ہتھیاروں پر کنٹرول آئین میں دیے گئے اس حق کی خلاف ورزی ہے جو ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔