برطانیہ کی معروف یادگار" اسٹون ہینج " برسوں سے لوگوں کی توجہ حاصل کررہی ہے۔ اس یادگار کے پتھروں کے نیچے بہت سے راز چھپے ہیں۔دائرے پر مشتمل اس یادگار کے دیو ہیکل ستون جنہیں حرکت دینے کے لیے بھی ایک ہزار لوگ درکار ہوں گے، پانچ ہزار سے ساڑھے تین ہزار سال سے جنوب مغربی انگلینڈ کے ایک میدان میں موجود ہیں۔یادگارکس نے بنائی، اس کا مقصد کیا تھا ؟ کیا یہ شمسی یعنی سولرکیلکولیٹر تھے، قبرستان تھے یا مزار تھے؟
لندن کے برٹش میوزئیم میں ہونےوالی ایک نئی نمائش میں اس یادگار کے کچھ اسرار سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ نمائش کا مقصد سورج کی پوجا کرنے والےان انسانوں کو سمجھنے کی کوشش ہے جنھوں نے ایسی انوکھی یادگار بنانے کا سوچا ۔
میوزیم کے سربراہ نیل ولکن نے اس موقعے پر کہا کہ "ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ ہم اسٹون ہینج کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم اسکول کے دور سے ہائی وے " اے تھری زیرو تھر ی "سےڈرائیو کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور بچوں کو دکھانے کے لیے لاتے ہیں۔ لیکن ہم ان لوگوں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے، جنھوں نے یہ یادگار بنائی اور جو اس یادگار پر عبادت کےلیے آتے تھے"۔
" دی ورلڈآاف اسٹون ہینج "نامی نمائش میں یادگار کے تخلیق کاروں اور ان کی دنیا کے بارے میں اسرار کھولنے کےلیے یورپ بھر سے 403 اشیا کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ اشیا ایک کے بعد دوسرے لوگوں کے گروپ کے اسرار کھولتی ہیں جوجدید لندن سے 80 میل جنوب مغرب میں اس علاقے میں آبادتھے۔یہ انقلابی تبدیلیوں کا دور تھا جس میں تکنیکی ترقی اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اور سماجی تبدیلیاں آئیں۔
پتھر کے زمانے کے نیم خانہ بدوش کسان جنھوں نے اسٹون ہینج کا پہلا مرحلہ تعمیر کیاتھا، 150 میل دور ویلز سےپتھرلائے تھے ۔ ان کے بعد کانسی کے زمانے کےکسان ، تاجر اور جنگجووں نے ان کی پیروی کی جن کی براعظم یورپ میں گہری جڑیں تھیں۔
اسٹون ہینج کا بدلتا ہوا استعمال اس معاشرے میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ پہلے یہ ایک قبرستان تھا، جہاں ڈیڑھ سو سے دو سو مردوں ، عورتوں اور بچوں کی باقیات کو سپرد خاک کیا گیا تھا۔ یہ ایک معاشرے کی نئی شکل میں ڈھلنے کااحساس دلاتا ہے۔
میوزیم کے سربراہ نیل ولکن نے کہا کہ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا یہ اہرام مصر کی طرح ہے؟ لیکن یہاں یادگاروں کے درمیان کوئی فر عون نہیں ہے۔یہ یادگار ایک فرد سے کہیں زیادہ کمیونٹی سے متعلق ہے۔
بعد میں اصلی نیلے پتھروں کو تیرہ میٹر کی انگوٹھی کی شکل کے ایک دائرےمیں ایک چوکھٹ کی طرح رکھا گیاجن میں سے اکثر اب بھی وہاں کھڑےہیں۔ولکن نے کہا کہ یہ یادگار آبائی تعظیم اور تقاریب کے لیے ایک جگہ بن گئی ہے جو دور دراز سے آنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
نمائشی پروجیکٹ کی تخلیق کار جینیفرویکسلر نے کہا کہ یہ قبل از تاریخ کے عہد کی یادگار ہے۔
نمائش میں بہت سی تصاویر ہیں جن میں پتھروں کی کلہاڑیوں سے ڈھکی دیوار سے لے کر سونے کی باریک بنی ہوئی ٹوپیاں اور زیورات بھی شامل ہیں جو قرون وسطی کے لگتے ہیں، لیکن کئی صدیوں پرانےہیں ۔
نمائش میں چارہزا ر سال قبل تعمیر کیے گئے بلوط کے خطوں کے دائرے کی ہینج بھی شامل ہے جو انیس سو چورانوے میں ایک انگلش ساحل پر سمندری لہروں کی وجہ سے معجزانہ طور پر ظاہر ہوا تھا۔
اسٹون ہینج کی طرح ، خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا بھی تعلق سورج سے رہا ہےجو کہ اس قدیمی معاشرے کی زندگیوں اور عقائد کا مرکز تھا۔ اسٹون ہینج کو خصوصی طور پر موسم گرما اور موسم سرما میں بالترتیب طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، جو کہ قدیمی کسانوں کے لیے ان کے کیلنڈر میں اہم تاریخیں تھیں۔
نمائش کا اسٹار آئٹم چھتیس سو برس پرانا نبرا اسکائی ڈسک ہے ، جس پر سورج ، چاند اور ستاروں کی نمائندگی کرتے سونے کی علامت سجی ہوئی ہے۔جسے کائنات کا قدیم تریم نقشہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ڈسک انیس سو ننانوےمیں مشرقی جرمنی میں ملا تھا۔ لیکن سونا جنوب مغربی انگلینڈ میں کارن وال سے لایا گیا تھا جو اس بات کا ثبوت ہےکہ قدیم برطانوی ہماری سوچ سے کہیں زیادہ جڑے ہوئے تھے۔
ولکن نے کہا کہ " ہمارے مقابلےمیں نسبتا کم زندگی پانے کے باوجود یہ لوگ متجسس اور بہادر تھے۔ اس وقت نقل وحرکت اور نقل مکانی ہوتی تھی۔ یہ نقل وحرکت بالاخر پتھر کے زمانے کی ثقافت کو، جس نے اسٹون ہینج بنایا تھا، بہا لے گئی۔کیونکہ دھاتی کام کرنے والے یورپ کے تارکین وطن اپنے ساتھ سماجی، تکنیکی اورنو آبادیاتی تبدیلی لے کر آئے۔
نمائشی پروجیکٹ کی تخلیق کار جینیفرویکسلر نےکہا کہ دھات اپنے ساتھ ایک زیادہ غیر مساوی معاشرہ لائی کیونکہ لوگوں کو ان دھاتوں تک رسائی ملی جن سے خوبصورت اشیا تیار کی جاتی تھیں۔ دھات کا مطلب تھا کہ لوگ اپنے ساتھ اہم علامتیں لے کر چل سکتے تھے ۔ شائد اسی لیے اسٹون ہینج جیسے پتھروں کی یادگار کی ضرورت کم ہوگئی ۔ اس کے استعمال کے آخری دنوں میں اسٹون ہینج عظمت رفتہ کی یادگاربن گیا جو چاروں اطراف سے مدفون ٹیلوں سے گھرا ہوا تھا ، کیونکہ معاشرے کی اشرافیہ نے اسے آخری آرام گاہ کے طورپر منتخب کرلیا تھا۔
ولکن نے کہا کہ اس نمائش کا مقصد پتھروں کے دور سے کانسی کے دور میں تبدیلی کے انسانی پہلوں کا اجاگر کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ تکنیکی تبدیلی تھی لیکن اس نمائش میں اور بھی بہت کچھ دکھایا گیا ہے ۔ میرے خیال میں یہ ظاہر کرتاہےکہ اس کا لوگوں کے عقائد پر بہت زیادہ اثر ہوا اور لوگوں نے سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کی شناخت کیا ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)