امریکہ اور یورپی یونین نے جمعہ کو روسی توانائی پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک نئی شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام اعلیٰ حکام نے یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو کو مزید الگ تھلگ کرنے کی برسوں سے جاری کوششوں کا دوبارہ آغازکرتے ہوئے کیا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے زور دیا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن توانائی کو ہمسایہ ملکوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع کو اپنی جنگی مشینوں کو چلانےکے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بائیڈن نے کہا کہ انھوں نے یورپی یونین کے اعلی عہدار کے ساتھ مشترکہ طور پر جس شراکت داری کا اعلان کیا ہے اس سے روس کے توانائی کے ذرائع پر یورپ کے انحصار کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس براعظم کی گیس کی مجموعی طلب کو کم کرنےمیں بھی مدد ملے گی۔
صدر نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف اخلاقی نقطہ نظر سےبلکل درست ہے بلکہ ہمیں مضبوط اسٹریٹجک بنیاد فراہم کرتا ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن کا دورہ پولینڈ، یورپی کمیشن کا پوٹن کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزماس منصوبے کے تحت امریکہ اور دیگر ممالک اس سال یورپ کو مائع قدرتی گیس کی برآمدا میں پندرہ ارب کیوبک میٹر کا اضافہ کریں گے ، حالانکہ امریکی حکام یہ بتانے سے قاصر تھے کہ اس سال اضافی توانائی کون سے ممالک فراہم کریں گے۔
یورپی یونین کی انتظامی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ یورپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ توانائی کی فراہمی کے لیے روس کا متبادل دیکھے جو قابل اعتماد، دوستانہ اور قابل بھروسہ ہو۔انھوں نے کہا کہ ہمارا مقصد روسی ایندھن پر انحصار کو کم کرنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
روسی توانائی ماسکو کے لیے آمدنی اور سیاسی فائدہ اٹھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گھروں کو گرم کرنے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے یورپی یونین کے ملکوں میں تقریبا چالیس فیصد قدرتی گیس روس سے آتی ہے۔
حالیہ برسوں میں امریکہ نے ڈرامائی طور پر اپنی برآمدات میں اضافہ کردیا ہے اس کے باوجود یورپ کو زیادہ مائع گیس حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے ۔ امریکہ کی بہت سی برآمدی توانائی کی سہولیات پہلے ہی پوری استعدادکے مطابق کام کررہی ہیں اور زیادہ تر نئے ٹرمینلز ابھی صرف منصوبہ بندی کے مراحل میں ہیں۔
انڈسٹری لابنگ گروپ سنٹر فار لیکویفائڈ نیچرل گیس کےمطابق زیادہ تر توانائی کی امریکی کھیپ پہلے ہی یورپ کو جاتی ہے اورسپلائی کے زیادہ تر حصے کی خریداری کا پہلے ہی خریداروں سے معاہدہ طے ہے۔
گیس مارکیٹوں کی تجزیہ کار ایملی میک کلین نے کہا ہے کہ امریکہ ایک منفرد مقام پر ہے، کیونکہ اس کے پاس ایل این جی ہے جسے منزل تبدیل کرکے یورپ یا ایشیا میں بھیجا جاسکتا ہے۔اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون اس کی قیمت ادا کرنے کےلیے تیار ہے۔
اگر امریکہ یورپ کو مزید بھی گیس بھیجے تو بھی یورپ کو اسے وصول کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑسکتی ہے کیونکہ بیشتر درآمدی ٹرمینل ساحلی علاقوں میں ہیں جہاں سے اس کی تقسیم کے لیے پائپ لائنوں کے کنکشن بہت کم ہیں اور اگر یورپ کی تمام سہولیات پوری استعداد کے مطابق کام کررہی ہوں توبھی گیس کی مقدار ممکنہ طور پر روس کی پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی گیس کا صرف دو تہائی ہی ہوگی۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)