چینی ہیکرز نے بھارتی پاور گرڈ کو ہیک کرنے کی کوشش کی، رپورٹ

نئی دہلی کے مضافات میں بجلی کی تاروں کے ٹاورز (فائل فوٹو)

امریکہ میں قائم ایک نجی سائبر سیکورٹی کمپنی نے رپورٹ دی ہے کہ بھارت کے توانائی کے شعبے کو طویل عرصے سے ہیکرز نے نشانہ بنایا ہوا ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ چین کی سرکاری سر پرستی میں چلنے والے ایک گروپ کی کارستانی ہے۔

میسا چوسٹس میں قائم" ریکارڈڈ فیوچر" کے خطرات سے متعلق تحقیقی ڈویژن 'انسکٹ گروپ 'کئی مہینوں سےشواہد اکٹھے کررہا تھا اس کا کہنا ہے کہ ہیکرز دو ایٹمی پڑوسیوں کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقے کے قریب الیکٹریکل ڈسپیج اور گرڈ کنڑول کے سات بھارتی ریاستی مراکز کو نشانہ بنارہے ہیں۔

گروپ کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے بنیادی طور پر ٹروجن 'شیڈوپیڈ' کا استعمال کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے چین کی وزارت برائے ریاستی سلامتی کے کنٹریکٹرز نے تیار کیا ہے، جس کی وجہ سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ ہیکنگ ایک سرکاری کوشش ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لی جیان نے جمعرات کو کہا کہ بیجنگ نے اس رپورٹ کو نوٹ کرلیا ہے لیکن چین کسی بھی قسم کے سائبر حملوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور کسی بھی سائبر حملے کی حوصلہ افزائی اور حمایت نہیں کرے گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں سائبر حملے اور چین کا کردار

بھارت کی وزارت الیکڑونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جمعرات کو خبر پر تبصرہ کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا لیکن وزیر برائے بجلی آر کے سنگھ نے کہا کہ رپورٹ پر تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔

ریکارڈڈ فیوچر عالمی سطح پر مختلف شعبوں کو نشانہ بنانے والے چینی ریاست کے زیر اہتمام سرگرم گروپوں کا سراغ لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ زیادہ تر سائبر جاسوسی کی کوششوں جیسے غیر ملکی حکومتوں کو نشانہ بنانا، اختلافی اور اقلیتی گروہوں کی نگرانی اور معاشی جاسوسی کو سامنے لاتے ہیں۔

تفتیش کار ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کرسکے ہیں کہ ہیکر اس سسٹم میں داخل کیسے ہوئے لیکن ریکارڈڈ فیوچر کا خیال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ پہلے سے ہی اصل ڈاکومنٹس کے ساتھ انسٹال کردیے گئے ہوں تاکہ ان تک پہنچنا آسان ہو۔

ریکارڈڈ فیوچر کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس کا مقصد اطراف کے اہم بنیادی ڈھانچے کے نظام کی معلومات اکٹھا کرنا یا مستقبل کی سرگرمیوں کا اندازہ کرنا ہوسکتا ہے۔

(اس رپورٹ میں مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)