کچھ عرصے سے ہمارے پروگراموں میں بھی اور اخبارات اور سوشل میڈیا پر، پاکستانی کسان اپنے ان مصائب کی کہانی سنارہے ہیں جو خشک سالی کے پیدا کردہ ہیں، جس نے ان کی لہلہاتی فصلوں کو سکھا دیا اور خوش رنگ اور رسیلے پھل ٹہنیوں پر ہی سوکھ گئے۔
کھیتوں سے روزی روٹی حاصل کرنے والے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کریں تو کیا کریں؟ ان سب میں ولن ایک ہی ہے، اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلی، جو ہر ایک کی دشمن ہے،چاہے کسان یورپ کا ہو، افریقہ کا یا پاکستان کا۔
مجھے یقین ہے کہ پیرس کے ایک کسان کی جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں ویسے نہ جانے کتنے خوش امید اور تجربات کے شوقین کسان پاکستان کے دیہات میں اسی طرح خشک سالی سے لڑ رہے ہونگے، آپ چاہیں تو یہ کہانیاں ہم سے شئیر کریں لیکن اس وقت چلتے ہیں فرانس کے ایک ایسے علاقے میں جہاں بہت سے کھیت ہیں۔
اگر آپ اس تصویر کو دیکھیں تو اس کی دوسری جانب گندم کا کھیت ہے، جہاں فصل کٹ چکی ہے ، خس و خاشاک کا ڈھیر ہے اور 2022 کی شدید گرمی کی وجہ سےمٹی ہڈیوں کی طرح خشک ہے۔ لیکن اسی علاقے کے ایک کسان یوڈس کوٹ کے جوارکے کھیت میں پتے سرسبز ہیں اور پودوں پر لگے سٹوں میں جوار کے دانے بالکل پورے ہیں ، جنہیں دیکھ کر اگانے والے کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا ہے۔
اب اس میں کسان کی دانائی یہ ہے کہ اس نے جوار کا انتخاب اس لئے کیا کہ جوار کے پودوں میں خشک سالی برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ اور یہی اس کھیت کی ہریالی کی وجہ ہے، یوڈس کی اس فصل میں جوار کے پودے گرمی سے ہار ماننے کے بجائے، گرمی کو مار رہے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان میں رواں برس آم کی پیداوار متاثر کیوں ہوئی ہے؟آج کی دنیا میں جب اناج میں بھی لوگ طرح طرح کی اختراعات کر رہے ہیں، اس فصل کا کچھ حصہ گلوٹین سے پاک باجرے کے آٹے کی شکل میں بیچ دیا جاتا ہے۔ باقی کو اناج کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے، جسے دال کی طرح پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔ اور پتوں کو جانوروں کے چارے کے طور ہر استعمال کیا جاتا ہے۔
فرانس میں جوار کی پیداوار جو کہ 2016 میں 270,000 ٹن تھی، 2021 میں بڑھ کر تقریباً 440,000 ٹن تک ہو گئی ہے، ۔ یہ اعداد و شمار فرانس کی وزارت زراعت کے ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گلوٹین فری باجرے کی یورپ میں ایک خاص مارکیٹ ہے۔ اسی لئے اب بہت سے کسان اس فصل کو کاشت کر رہے ہیں ۔
Your browser doesn’t support HTML5
یورپی یونین کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پورے براعظم میں پیدا ہونے والی فصل کا صرف ایک چوتھائی حصہ انسانی استعمال میں جاتا ہے۔باقی جانوروں کو کھلا دیا جاتا ہے۔
یوڈس بھی اب نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔وہ آنے والے برسوں میں جوار کی بیئر، سبزی سے بنے اسٹیک اور دیگر مصنوعات تیار کرنے کے لیے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
"وہ کہتے ہیں،"کل کی زراعت کے بارے میں یہ سوچنا ہوگا کہ پانی کے زیادہ استعمال کے بغیر خوراک کیسے پیدا کی جائے، اس کے کیا امکانات ہیں، وہ کون سی فصلیں ہیں جو آج ہم اگا سکتے ہیں، اور ہمیں مستقبل میں کیا کرنا ہو گا، جوار کی کاشت ، زراعت کے بارے میں سوچنے کا ایک نیا طریقہ ہے، جو ایک پائیدار زراعت کی طرف بڑھتا ہے اور مستقبل کے وسائل کو محفوظ رکھنے کی ضمانت بن سکتاہے۔"
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔