تائیوان کے مسئلے پر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافے پر افریقہ میں توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ اور جس انداز کا رد عمل اس وقت سامنے آرہا ہے اس سے براعظم کا بیجنگ کی جانب جھکاؤ نظر آتا ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے ارکان کانگریس کے ایک وفد کے اس ہفتے کے اوائل میں تائیوان کے دورے کے بعد جمعرات کے روز تائیوان کے ساتھ تجارتی بات چیت کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ارکان کانگریس کا یہ دورہ ایوان نمائیندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے تائیوان کے متنازعہ دورے کے بعد ہوا تھا۔
تائیپے کے ساتھ واشنگٹن کے حالیہ رابطوں نےبیجنگ کو مشتعل کردیا جس کے نتیجے میں چینی فوج نے تائیوان کے گرد سمندر میں فوجی مشقیں شروع کر دیں۔
اور اسوقت صورت حال یہ ہے کہ زیادہ تر افریقی ممالک چین کے طرف دار دکھا ئی دیتے ہیں۔
SEE ALSO: چین نے امریکہ تائیوان رابطوں پر تائیوانی شخصیات پر پابندیاں لگا دیںاسپیکر پلوسی کے دورے کے دوران متعدد افریقی ممالک کے عہدیداروں نے امریکہ کی مذمت کی اور برسر عام چین کی حمایت کی۔ ان میں اریٹیریا کی حکومت، زمبابوے کی حکمران زینو- پی ایف پارٹی اور جمہوریہ کانگو کے وزیر خارجہ شاملہیں۔
چین کے سرکاری میڈیا نے افریقی حکومتوں کی اس حمایت کی “ چائینا ڈیلی” میں لکھے گئے ایک مضمون کے ذریعے تشہیر میں تیزی دکھائی۔ مضمون کی ہیڈ لائن تھی “ افریقی۔ پلوسی کے دورے میں اصل امریکی پالیسی دیکھ رہے ہیں “۔
سی جی ٹی این کے ایک مضمون میں بھی ان تمام افریقی عہدیداروں کی نام دئیے گئے۔ جنہوں نے بیجنگ کی طرف داری کی۔
بر اعظم افریقہ میں دو علاقےصومالی لینڈ اور اسواٹینی ایسے ہیں جو تائیوان کی حمایت کرتے ہیں۔اسوا ٹینی کو پہلے سوازی لینڈ کہا جاتا تھا۔
SEE ALSO: تائیوان مزید غیر ملکی وفود کا خیر مقدم کرے گا : وزیر خارجہ جوزف وو کا وی او اے کو خصوصی انٹرویوچین اور تائیوان کے درمیان جھگڑا 1940 کے عشرے میں چین کی خانہ جنگی کے نتیجے میں اس وقت شروع ہوا جب چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت چین میں ماؤزے تنگ کے کمیونسٹوں کے مقابلے میں ہار گئی۔ اور اس نے جزیرہ تائیوان میں اپنی الگ حکومت قائم کر لی۔
خیال رہے کہ بیجنگ تائیوان کو اپنا الگ ہو جانے والا صوبہ سمجھتا ہے جسے وہ اگر ضروری ہو تو بزور طاقت بھی واپس لینے کا خواہاں ہے۔