کراچی، پشاور (فضل عزیز/عثمان خان) پاکستان کے شمال مغربی ضلع بونیر میں ایک سکھ اقلیتی خاندان نے اتوار کو ایک احتجاج کے دوران کہا کہ ایک مسلمان شخص نے ان کی بیٹی سے مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب کے بعد زبردستی شادی کر لی ہے۔
احتجاج کے دوارن لڑکی کے والد گور چرن لال جی نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کو بتایا کہ "میری بیٹی دینا کماری دماغی مسائل کا شکار ہے، وہ ایک اسکول ٹیچر ہے، اور اسے سکول جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، پھر زبردستی اسلام قبول کراکے ایک مقامی شخص سے شادی کر دی گئی، میری حکومتِ پاکستان سے التجا ہے کہ میری بچی مجھے واپس کی جائے "۔
یہ واقعہ بونیر کے ضلع پیربابا کے گاؤں پاچہ میں ہفتے کے روز پیش آیاہے ۔
احتجاج کرنے والے خاندان کے ساتھ خاصی تعداد میں مقامی لوگ بھی شریک تھے ۔
لڑکی کے خاندان والوں نے جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں ، کہاکہ پولیس نے اغوا کاروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیاہے ۔تاہم مقامی پولیس نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
دوسری جانب دینا کماری کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے اور حزب اللہ نامی لڑکے سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے ۔
پیربابا تھانے کے ایڈیشنل ایس ایچ او، بہراور سید نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ لڑکی کے والدین ہفتے کی دوپہر تھانے آئے اور گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کو گرفتار کر کے اتوار کو اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سکھ اقلیت کے ایک رہنما سنت سنگھ کا کہنا ہے کہ پولیس نے بروقت رپورٹ درج نہیں کی اور تاخیر ہونے سے اسے اسلام قبول کراکے شادی پر مجبور کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ" پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا ، اس لیے والدین نے احتجاج کیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں لڑکی کو ان کے حوالے کیا جائے اور اگر اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہے وہ کر سکتی ہے"۔
لیکن بونیر ڈسٹرکٹ پولیس کے ڈی پی او عبدالرشید خان نے سکھ اقلیت کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے لڑکی کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کیا ہے ، لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کی ہے، اس لئے قانونی طور پر مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔
SEE ALSO: جبری تبدیلیٴ مذہب کے تدارک کا مجوزہ قانون، پارلیمانی کمیٹی نے معاملہ ختم کیوں کیا؟" ایف ائی آر تو تب درج ہوگی جب کوئی جرم ہوگا ، لڑکی نے خود کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے اور یہ پاکستان کے قانون میں جرم نہیں ، ایک بالغ اور عاقل لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں"۔
طارق افغان قانونی ماہر ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ" پولیس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے واقعے کی فوری رپورٹ درج کرے کیونکہ یہ ایک حساس واقعہ ہے اور اقلیتوں کا معاملہ ہے"۔
ان کی رائے میں یہ پولیس کی غفلت ہے کہ اس نے مقدمہ درج نہیں کیا ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ " اس لڑکی کو کچھ دنوں کے لیے اس کے والدین کے پاس بھیج دیا جائے، جب لڑکی خود کہےکہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہتی ہے، تو پھر ٹھیک ہے،اس واقعے کی حقیقت کا پتہ لگانا چاہیے کہ لڑکی پر کوئی دباؤتو نہیں یا زبردستی تو نہیں کی گئی اور وہ خوف کے مارے کچھ نہیں کہہ سکتی"۔
ضلع بونیر میں سکھوں کی ایک بہت بڑی کمیونٹی آباد ہے ، لیکن ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یہاں اکثریتی مسلم لڑکوں سے تبدیلی مذہب اور شادیوں کے واقعات بہت کم ہوئے ہیں۔
سنت سنگھ کا کہنا ہے کہ بونیر میں400 سے زائد سکھ خاندان ہیں جن میں 60 سے زائد خاندان پیربابا میں رہتے ہیں اور یہ سکھ قیام پاکستان سے بہت پہلے سے 100 سال سے زائد عرصے سے یہاں آباد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بونیر میں مقامی لوگوں کا سکھ کمیونٹی کے ساتھ اچھا رشتہ اور بھائی چارہ ہے ،لیکن کچھ لوگ ہیں جو ان کے اور مقامی لوگوں کے درمیان علیحدگی اور مایوسی پیدا کرنا چاہتے ہیں.
شہری اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک عرصے سے یہ الزام لگا رہی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ نہیں دیا جاتا لیکن پاکستان ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں ۔